• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان،لندن
موٹروے زیادتی کیس نے کتنے سوالوں کو جنم دیا ہے کہ صرف قانون اور نظم و نسق ہی زیر بحث نہیں آئے گا۔ تاریخ میں بھی جھانکنا پڑے گا۔ مرد کی جھوٹی بالادستی کو چیلنج کرنا پڑے گا۔ کتنے لوگ پکڑے گئے۔ اصل ذمہ داران کو پکڑا گیا یا نہیں۔ پولیس کتنی شریک جرم ہے۔ یہ ہمارا آج کا فوکس نہیں ہے۔ یہ سب کچھ تو فلم دوسرے میڈیا پر لمحہ بہ لمحہ دیکھ ہی رہے ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے اس ریپ کی روشنی میں پورے معاشرے میں عورت کے ساتھ برتاؤ کے محرکات کو دیکھا جائے۔ روزانہ ہونے والی کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی کے پیچھے کیا کیا اسباب ہیں۔ انہیں پرکھا جائے۔ مرد اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے۔ کیا وہ عورت کو بھی ویسا ہی انسان سمجھتا ہے یا اس کے لیے کوئی اور پیمانہ بنا رکھا ہے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مرد کو ایسا احساس دلانے کے پیچھے کونسی تعلیمات اور تربیت ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑگیا ہے۔ مرد کی تعلیم و تربیت نے اسے ایسا طاقتور بنادیا ہے جو کمزوروں کو مزید کمزور تر کرتا چلاجاتا ہے۔ وہ صرف کمزروں پر اپنا کنٹرول ہی نہیں بڑھاتا بلکہ زیادتیوں کے انبار لگاتا چلا جاتا ہے۔ یہ بات عام گھریلو تشدد سے شروع ہوکر ریپ اور قتل و غارت گری تک جاپہنچتی ہے۔ اس ریپ، گینگ ریپ اور بچوں اور کم سنوں سے زیادتی کے پیچھے مخصوص نفسیات ہے۔ ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ ظلم کرکے سزا سے بچ جانے کا یقین ہے۔ جو بار بار ظلم کرکےسزا سےبچ جانے کا یقین تسلیم نہیں کرتا ۔ حقوق دینا تو دور کی بات۔ مرد کو یہ احساس ہے کہ عورت صرف اس کی خدمت اور دل لگی کے لیےبنی ہے اور صرف افزائش نسل کیلئے پیدا کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ نہ اس کا کوئی روپ ہے نہ کردار۔ باقی سارا گروپ اور کردار صرف مرد کا ہے کیونکہ سارا نظام بھی مرد کا ہے۔ اس کے وارث بیٹے ہوتے ہیں۔ خاندان کا نظام اور شجر بیٹوں سے چلتا ہے۔ عورت کا تو نام بھی مستقل نہیں ہوتا۔ جب پیدا ہوتی ہے تو باپ کا نام ساتھ لگاتی ہے۔ جب شادی ہوتی ہے تو شوہر کا نام ساتھ لگاتی ہے ، اس کی اپنی مستقل کو ئی پہچان نہیں ہے۔ تعلیم دی جاتی ہے تو اس کے دل و دماغ میں ڈال دیا جاتا ہے کہ شرم وحیا تمہارا زیور ہےلڑکے کو شرم وحیا سے دور رکھا جاتا ہے، جو بچی گھر میں والدین اور سکول میں اساتذہ کے ساتھ بے باکی سے سوال و جواب کرے اسے لمبی زبان والی اور گستاخ یا جوان ہونے پر بدچلن کہا جاتا ہے۔ عام طور پرماں باپ اس کی تربیت اس طرح سے کرتے ہیں کہ بیٹی بخیریت بڑی ہوجائے اور اپنے سسرال کی راہ سدھارے۔ پاکستان معاشرے میں نوے فیصد لڑکیاں اسی طرح کے دبے ہوئے ماحول میں پرورش پاتی ہیں۔ اسے دوران تربیت یہ باور کرادیا جاتا ہے کہ تم نے اپنے کیریئر اور مستقبل کو کسی انجانے مرد کے ساتھ جوڑنا ہے اور اس کے مستقبل کو سہارا دینا ہے۔ اس کے فیصلوں کے آگےسر تسلیم خم کرنا ہے۔ اس کی خواہش اور صوابدید پر اپنے شب و روز گزارنے ہیں، اس کی اجازت اور منظوری سے دوست بناتے ہیں یا کسی سے ملنا ہے یا نہیں ملنا ہے، پردہ کرنا ہے یا کتنا خود کو سامنے لانا ہے، گھر میں کیسے رہنا ہے اور شام کو گھر واپس آنے والے شوہر کا کس طرح استقبال کرنا ہے، یہ سب اس کی تربیت اور دیئے گئےخوابوں کا حصہ ہے لیکن اس طرح کے غلامانہ خواب مرد یا لڑکے نہیں دیکھتے ۔ لڑکے کو اپنی آزادی پلان کرنی ہے، مرد کی آزادی، جو اس کی معاشی آزادی میں تنہا ہے، وہ اپنا کیریئر پلان کرتا ہے، اپنے دوستوں کا انتخاب کرتا ہے، جائیداد بنانے اور دولت اکٹھی کرنے کے منصوبے بناتا ہے، اعلیٰ مقام اور حیثیت حاصل کرنے کی پلاننگ کرتا ہے، اس کی تربیت کے طریقے الگ ہیں، اس کے پاس غلطیوں کی چھوٹ اور معافی ملنے کی طویل گنجائش ہے جب کہ لڑکی کیلئے یہ سب کچھ نہ ہونے کے برابر ہے، وہ گھر کی عورتوں خصوصا بیٹیوں ، بہنوں اور بیویوں کو اپنی غیرت بنا کے جیتا ہے،اس کی نظر میں بہنوں، بیٹیوں اور بیوی کی کوئی غیرت اور عزت نہیں ہوتی کیونکہ وہ خود کو ہرکام کیلئے آزاد اور اپنے لئے سب جائز سمجھتا ہے، عام محاورہ بولا جاتا ہے کہ لڑکی کی عزت لٹ گئی، یا عزت لوٹنے کی کوشش کی گئی، یعنی جو ظالم ہوس پرست یہ کام کررہا ہے، اس کی کوئی عزت نہیں گئی بلکہ جس کے ساتھ زیادتی کررہا ہے اس کی عزت لٹتی ہے، یہ سب دراصل مردکے بنائے محاورے ہیں کیونکہ مرد عورت کو اپنی ملکیت کے طور پر اپنے ساتھ رکھتا ہے، لڑکی کی تربیت میں اسے بچپن ہی سے بتادیا جاتا ہے کہ تم لڑکی ہو (انسان نہیں) اسے کئی طرح کے کھیل، لباس، بات چیت وغیرہ سے یہ کہہ کر روکا جاتا ہےکہ تم لڑکی ہو، یہی جتنی تفریق عورت کی حیثیت کو کمزور اور گھٹیا کرتی چلی جاتی ہے۔ اس لئے ہمارے دیسی معاشروں میں لڑکی کا اکیلے باہر آنا جانا غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ اسے صنف نازک کہا جاتا ہے جو باہر آنے جانے کیلئے مرد کے ساتھ ہونے کی محتاج ہے۔ ریاست بھی اکیلی لڑکی کوتحفظ دینے کیلئے تیار نہیں۔ عورت کو اس بات کا مکمل احساس دلایا جاتا ہے کہ خونخوار اور کنٹرول سے باہر مردوں کا معاشرہ ہے جو کمزور عورت کو اکیلے دیکھ کر کنٹرول سے باہر ہوجاتے ہیں یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے، جس میں موٹروے سانحے جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
تازہ ترین