• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرپشن کا سدِباب کسی بھی ملک کا خامیوں سے پاک نظام چلانے کیلئے انتہائی ضروری ہوتا ہے، ہر ملک اپنے معروضی حالات کے مطابق اس کے خاتمے کیلئے ادارے قائم کرتا اور قوانین بناتا ہے۔ پاکستان میں بھی جس کا بدعنوانی میں دنیا کے 180ممالک میں 120واں نمبر ہے، اس لعنت پر قابو پانے کیلئے اینٹی کرپشن کے محکمے سمیت کئی ادارے موجود ہیں۔ سب سے بڑا ادارہ قومی احتساب بیورو (نیب) ہے جس نے بلا شبہ کرپشن کے کئی بڑے اسکینڈل پکڑےٗ مجرموں کو سزائیں دلوائیں اور اربوں روپےبرآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کروائے یہ بات طے شدہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی کرپشن کے میگا اسکینڈلز پر کڑی نظر ہے تاہم یہ وزیراعظم عمران خان نے بھی شدت سے محسوس کیا ہے کہ نچلی سطح پر بدعنوانی کی صورتحال جوں کی توں ہے۔ وزیراعظم کے ان خیالات کی روشنی میں پٹوار کلچر سب سے زیادہ بدنام ہے جس میں شامل راشی اہلکاروں کی شرح دوسرے محکموں کی نسبت بہت زیادہ ہے اس حوالے سے اکثر لوگوں کی زبانی یہ کہتے بھی سنا گیا ہے کہ رشوت نہ لینے والے شخص کا اس محکمے میں کوئی کام نہیں۔ ایک غریب آدمی کو اگر چھوٹے سے مکان کا مقدمہ لڑنا پڑ جائے تو اس کی شروعات ہی پٹواری سے ہوتی ہے اور اس نظام کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ ماضی کی کئی حکومتوں کی طرف سے اس کلچر کو ختم کرنے کی کوششیں بیکار ثابت ہو چکی ہیں۔ 2016میں حکومت پنجاب نے صوبے میں لینڈ ریکارڈ اتھارٹی قائم کی تھی جس کے توسط سے پراپرٹی رجسٹریشن کا مکمل کام سات سے کم کرکے چار مراحل تک محدود کرتے ہوئے یہ 56کے بجائے 18دنوں میں کرنے کا طریق کار وضع کیا گیا تھا جس کیلئے تحصیل سطح پر 143ڈیجیٹل دفاتر قائم کئے گئے تھے جہاں خاطر خواہ توجہ نہ ہونےکے باعث محکمہ اراضی کا بیشتر ریکارڈ آج بھی پٹواریوں کے پاس ہے گویا 12ارب روپے کی لاگت سے قائم کئے جانے والے یہ دفاتر ابھی تک مکمل کارکردگی کے حامل نہیں ہو سکے جس کےتوسط سے نو آبادیاتی نظام کے تحت قائم کئے گئے محکمہ پٹوار کو ختم کیا جا سکے۔ اب بھی لینڈ ریکارڈ کے مراکز سے روزانہ بیشتر ضرورت مندوں کو پٹواری کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے بدھ کے روز ایک اعلیٰ اجلاس میں ملک بھر سے پٹوار کلچر ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک جامع پروگرام پیش کیا ہے جس کے تحت بدعنوان اور رشوت خور عناصر سے برآمد کیا جانے والا پیسہ آئندہ تعلیم کے شعبے پر خرچ کیا جائے گا جس کیلئے اسمبلی سے قانون پاس کرایا جائے گا۔ یہ ایک نہایت ذمہ دارانہ سوچ ہے جیسا کہ نیب موجودہ چیئرمین کے دور میں اب تک چار سو ارب روپے کے لگ بھگ کالا دھن برآمدکر چکا ہے۔ دوسری طرف اگر معیشت کی دگرگوں صورتحال اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ تعلیم کا بجٹ کم از کم دگنا ضرور کیا جائے تو یہ کمی رشوت سے لوٹی گئی قوم کے ہزاروں ارب روپے سے پوری کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ وزیراعظم نے اس بات کا اقرار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو برس میں ہم تعلیم پر اتنی توجہ نہیں دے سکے کیونکہ یہ بقا کی جنگ تھی اب ہماری کوشش ہے کہ جہاں سے بھی پیسہ بچے اسے تعلیم کے فروغ پر خرچ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سے ہزاروں طالب علم اے لیول میں معیاری نمبروں کی بنیاد پر دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں کثیر آبادی ہنر مند نوجوانوں پر مشتمل ہے اس ضمن میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کے باوجود ملک کے ایک کروڑ سے زیادہ بچے اور نوجوان وسائل نہ ہونے کے باعث تعلیم و ہنر سے دور ہیں اور یہ حالات انہیں بے راہ روی کی طرف جانے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان کی بحالی کو بھی آئندہ ایجنڈے میں شامل کیا جانا چاہئے۔

تازہ ترین