وزیراعظم کی زیر صدارت بجلی کی فراہمی کے حوالے سے جاری اصلاحات کے عمل کے جائزہ اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ عوام کو سستی اور بلاتعطل بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے حکومت تمام وسائل بروئے کار لائے گی، اجلاس میں وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر توانائی عمر ایوب، وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز اور دیگر سینئر افسروں نے شرکت کی۔ لندن اسکول آف اکنامکس کے پروفیسر ڈاکٹر رابن برجیس اور شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل گرین اسٹون سمیت معاشیات اور توانائی کے شعبوں میں تحقیق و عمل سے وابستہ بین الاقوامی ماہرین بھی بذریعہ وڈیو لنک اجلاس میں شریک تھے۔ اس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ عہد حاضر میں توانائی کا حصول اور اس کی مسلسل ترسیل کسی بھی ملک کی معاشی و اقتصادی ترقی کیلئے ناگزیر ہے۔ ماضی میں جو ہوا سو ہوا، لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں، ہمیں یہ بات مدِنظر رکھنا ہو گی کہ ملکی آبادی میں شتر بےمہار اضافے کے باعث ہر شے کا توازن یا تو بگڑ چکا ہے یا بگڑ رہا ہے۔ شہروں میں نقل مکانی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے یوں بجلی کی طلب اور رسد کا نظام بُری طرح متاثر ہوا ہے، صنعت و حرفت اور زراعت بھی بجلی کی قلت کے باعث بےحالی کا شکار ہے۔ ہائیڈل بجلی سستی ترین ہے لیکن اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی بلکہ فرنس آئل اور گیس سے بجلی بنانے کے مہنگے ترین طریقے جاری ہیں، لائن لاسز اور بجلی چوری اس پر مستزاد ہے۔ یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ رینٹل پاور پراجیکٹس کی ناکامی اور حبکو معاہدوں پر سیر حاصل گفتگو کے بعد نتیجہ یہی سامنے آیا تھا کہ ہمیں بالآخر ہائیڈل پاور اور بجلی بنانے کے متبادل ذرائع کی طرف جانا ہی پڑیگا۔ امید ہے کہ وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں سبھی باتیں زیر غور آئی ہوں گی، خاص طور پر بجلی کی طلب اور رسد میں عدم توازن کے خاتمے کی تجاویز پر عرق ریزی کی گئی ہوگی، یہ بھی کہ بجلی کی ترسیل کا پورا نظام تبدیلی کا متقاضی ہے۔ حکومت کو مرحلہ وار اس کی اصلاح کرنا ہوگی، تب ہی معاملہ حل ہوگا۔