• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معمر خاتون جج کی موت، امریکی سیاسی نظام کے ستون ہل گئے، انتخابی سیاست میں تلخی

نیویارک (عظیم ایم میاں) امریکی سپریم کورٹ کی ایک 87 سالہ خاتون جج روتھ گنزبرگ کی اچانک موت نے نا صرف 9 ججوں پر مشتمل امریکی سپریم کورٹ کی موجودہ ساخت اور مستقبل کے عدالتی فیصلوں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں بلکہ امریکی نظام کے تمام اہم ستون وہائٹ ہائوس، امریکی کانگریس اور اعلیٰ ترین عدالت کو ایک نیاچیلنج دیتے ہوئے انتخابی اور نظریاتی سیاست کو مزید تلخی اور تیزی سے دوچار کر دیا ہے۔ 

ڈیموکریٹ صدر بل کلنٹن کے دور میں امریکی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر عہدہ سنبھالنے والی لبرل خیالات کی بے باک حامل خاتون جج 27 سال تک اپنے فیصلوں میں لبرل نظریات کی ترجمانی کرنے والی روتھ گنز برگ کی 87 سال کی عمر میں 18 ستمبر کو اچانک موت نے امریکی صدارت کے انتخابات کی موجودہ تلخ اور تیز سیاست میں اضافہ کرتے ہوئے تمام توجہ اپنی جانشینی کے مسئلے پر مرکوز کر لی ہے۔ 

ری پبلکن صدر ٹرمپ فوری طور پر سپریم کورٹ کا نیا جج مقرر کر کے موجودہ سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کی اکثریت کا فائدہ اُٹھا کر سینیٹ سے منظوری حاصل کرنا چاہتے ہیں تا کہ سپریم کورٹ کے 9 ججوں میں کنزرویٹو خیالات اور ری پبلکن نظریات کے حامی ججوں کی تعداد میں اضافہ کر سکیں۔ 

جب کہ ڈیمو کریٹک پارٹی اور اس کے صدارتی امیدوار جوزف بائیڈن کا مطالبہ ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں امریکی صدارت اور کانگریس کے انتخابات کے بعد امریکی سپریم کورٹ کے نئے جج کی تقرری کا اختیار نئے صدر کو استعمال کرنا چاہئے چونکہ امریکی انتخابات کے نتیجے میں اس بات کا امکان بھی ہے کہ نہ صرف صدر ٹرمپ ہار جائیں بلکہ امریکی سینیٹ میں موجود ری پبلکن اکثریت کم ہو کر اپوزیشن میں تبدیل ہو جائے اور نیا صدر سینیٹ میں پارٹی اکثریت کی تبدیلی سے نئے جج کی تقرری کی منظوری بھی بآسانی حاصل کر سکے اور پھر امریکی سپریم کورٹ میں لبرل خیالات کے حامل ججوں کے حق میں بہتر توازن پیدا ہو جائے چونکہ امریکی سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری عمر بھر کیلئے ہوتی ہے اور وہ کبھی ریٹائر نہیں ہوتے لہٰذا سپریم کورٹ کی بنچ اور فیصلوں میں سالہا سال تک ان ججوں کے نظریات کا اثر چلتا رہتا ہے۔ 

لہٰذا سپریم کورٹ کی 87 سالہ خاتون جج 27 سال تک سپریم کورٹ کا جج رہنے کے بعد 18 ستمبر کو اپنی اچانک موت سے پورے امریکی سیاسی نظام اور موجودہ انتخابی سیاست کو ایک نئے تنازع اور دُوررس آزمائش سے دوچار کر گئیں۔

تازہ ترین