• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ججوں کی تقرری، حکومت 19 ویں آئینی ترمیم کو مزید شفاف بنانے پر آمادہ

اسلام آباد ( انصار عباسی ) حکومت جج صاحبان کی میرٹ کی بنیاد پر تقرریوں کے لئے 19 ویں آئینی ترمیم پر نظر ثانی کے لئے تیار ہے تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔حکمراں جماعت تحریک انصاف موجودہ اور نہ ہی پرانے سسٹم سے مطمئن ہے ۔ سیلیکشن کی بنیاد پر تقرریوں سے معمولی ججوں کی تعیناتی پر سمجھوتہ کر لیا جا تا ہے ۔

وزیر اعظم عمران خان کے ایک قریبی معاون نے بتایا کہ 19 ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ متعارف کردہ تقرریوں کا عمل میرٹ کے بجائے سیلیکشن پر مبنی ہے۔ اس آئینی ترمیم میں تبدیلیوں کے لئے حکومت اپوزیشن سے بات چیت کے لئے آمادہ ہے ۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن پرانے سسٹم کو واپس جانا چاہتی ہے ۔ تحریک انصاف کے اندر بھی اس بات پر بحث و مباحثہ ہوا اور خود وزیر اعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ ہائی کورٹس کے ججوں کا انتخاب شفاف انداز میں کھلے اور منصفانہ مقابلے کے ذریعہ ہو ۔

وزیر اعظم کے معاون کا کہنا ہے کہ جو وکلا کم از کم معیار پر پورے اترتے اور ہائی کورٹ کا جج بننے کے خواہاں ہیں ، انہیں ایک مقابلے کے امتحان سے گزرنا ہو گا اور اس میں کامیاب ہو نے والوں کو پھر ججوں اور ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل ایک پینل کے ذریعہ انٹرویو کے مرحلے سے گزرنا ہو گا ۔ 

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ معمولی ملازمتوں کے لئے بھی میرٹ کی بنیاد پر بھرتیوں کے عمل سے امیدواروں کو گزرنا ہو گا ۔ لیکن ججوں کی تقرریوں کے معاملے میں سیلکشن کی بنیاد پر صوابدید پر تقرریاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔

اس عمل سے نا اہل افراد کے اعلیٰ عدلیہ میں داخل ہو نے کی گنجائش نکل آتی ہے ۔18 ویں آئینی ترمیم سے قبل ججوں کی تقرری میں عدلیہ کو ججوں کی تقرری کو ریگولیٹ کر نے میں غلبہ حاصل تھا ۔اس عمل میں تمام ضراری چیک اینڈ بیلنس کا فقدان تھا۔

اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت ججوں کے انتخاب میں پارلیمنٹ کو کردار دینے کے لئے نظام میں تبدیلی کی گئی ،جوڈیشیل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹیکا قیام عمل میں لایا گیا ۔تاہم سپریم کورٹ کی مداخلت پر انیسویں آئینی ترمیم منظور کی گئی ،اس طرح ججوں کی تقرریوں کے موجودہ عمل میں پارلیمانی کمیٹی تو شامل رہے گی لیکن عدلیہ کا کردار زیادہ حاوی رہے گا۔

اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت ججوں کی تقرری میں پارلیمنٹ کو کردار دینا مقصود تھا ، تاہم یہ نظام بھی میرٹ کی بنیاد پر نہ تھا اور شفافیت نہیں لا سکا ۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان کے سفارش کردہ پینل سے صدر مملکت کرتے تھے ۔

اسی طرح ہائی کورٹس کے ججوں کی تقرریوں کے لئے متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان صوبائی گورنر اور چیف جسٹس آف پاکستان کے ذریعہ کے ذریعہ صدر کو ایک پینل پیش کر دیتے تھے ۔تقرریوں کے اس عمل میں کلیدی کردار چیف جسٹس آف پاکستان اور عدالت ہائے علایہ کے چیف جسٹس صاحبان کا ہو تا تھا ۔

آٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت اعلیٰ عدلیہ میں تقرریاں دو فورمز کے ذریعہ ہو نے لگیں ۔پہلا چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جوڈیشیل کمیشن جو سینئیر ججوں اور وزیر قانون وغیرہ پر مشتمل تھا۔

ججوں کی ہر اسامی کے لئے جوڈیشیلکمیشن ہی ججوں کو نامزد کرتا ۔اس ے پھر دوسرے فورم پارلیمانی کمیٹی میں پیش کیا جا تا جو حکمران اور اپزیشن بنچوں سے مساوی تعداد میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے چار چار ارکان پر مشتمل ہو تی۔

اٹھارہویں آئینی ترمیم کو اس بنیاد پر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا کہ اس میں عدلیہ کی ازادی پر سمجھوتہ کر لیا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں معاملہ حلکے لئے پارلیمنٹ کے حوالے کردیا ۔

یہ مشورہ بھی دیا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کو آئین کے مطابق ڈھالنے کے لئے کیا ردوبدل کیا جاسکتا ہے ۔ سپریم کورٹ کے مشورے پر پارلیمنٹ نے انیسویں آئینی ترمیم منظور کی جس میں دوبارہ سے ججوں کی تقرریوں میں اعلیٰ عدلیہکے ججوں کو ہی بالادست بنایا گیا ہے ۔  

تازہ ترین