• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) دنیا میں منی لانڈرنگ اور دہشت گرد وںکی فنانسنگ کی روک تھام کا عالمی ادارہ ہے جس نے 29 جون 2018کو پیرس میں ہونیوالے اجلاس میں پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کیا تھا اور اِس لسٹ سے نکلنے کیلئے پاکستان کو 10ترجیحات کے ساتھ 27نکاتی ایکشن پلان دیا گیا تھا جس پر عملدرآمد کیلئے 31اکتوبر 2019کا وقت دیا گیا تھا تاہم چین، ترکی، ملائیشیا اور خلیجی ممالک کی سفارش پر یہ مدت بڑھاکر فروری اور پھر جون 2020تک کردی گئی لیکن کورونا وائرس کے باعث اب FATFکا اجلاس رواں ماہ ستمبر میں ہوگا جس کیلئے حکومت کو FATFکی رپورٹ 6اگست تک FATFایشیا پیسفک گروپ کو پیش کرنا تھی۔ اِس سلسلے میں 16ستمبر کو FATFکے دو ترامیمی بل ’’اقوامِ متحدہ سلامتی کونسل ترمیمی بل‘‘ اور ’’انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2020‘‘ اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور ہوئے جن کا مقصد FATFکی باقی دیگر 13شرائط کی تکمیل ہے، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق اس قانون سازی کے بعد پاکستان کا نام ’’گرے لسٹ‘‘ سے نکال دیا جائیگا۔ نئی قانون سازی کے بعد منی لانڈرنگ کی سزا 5سال سے بڑھاکر 10سال اور جرمانے کی رقم ایک کروڑ روپے سے بڑھاکر 5کروڑ روپے کردی گئی ہے جبکہ ملزمان کی جائیدادیں ضبط اور اسلحہ لائسنس منسوخ کردیے جائیں گے۔ اِسکے علاوہ دہشت گردوں کی فنانسنگ اور مالی معاونت کرنیوالے شخص پر ڈھائی کروڑ روپے اور ادارے پر 5کروڑ روپے جرمانہ ہوگا۔ وفاقی حکومت نے FATFشرائط پورا کرنے کیلئے اِن ترمیمی بلز کی آڑ میں ایک ایسا بل بھی پیش کیا تھا جس کا تعلق بظاہر منی لانڈرنگ سے نہیں تھا۔ اس بل کے تحت حکومت کسی بھی شہری کو 180روز تک حراست میں رکھ سکتی تھی جس کا فیصلہ سرکاری ملازمین پر مشتمل ایک کمیٹی کرتی اور پھر اُس شخص کو کسی بھی ملک کے حوالے کیا جاسکتا تھا۔ اپوزیشن نے اِس بل کو ’’اکنامک ٹیررازم ترمیمی بل‘‘ کا نام دیا، بعد ازاں اپوزیشن کے دبائو پر حکومت کو یہ مجوزہ ترمیمی بل واپس لینا پڑا۔

FATFکی شرائط پر عملدرآمد ایک عالمی مسئلہ ہے اور اِن پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کا نام ’’گرے لسٹ‘‘ سے ’’بلیک لسٹ‘‘ میں شامل کیا جاسکتا تھا جس سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والے ممالک میں پاکستان کا رسک پروفائل بڑھ جاتا اور بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری اور کاروبار سے گریز کرتے، لہٰذا حکومت اِن اقدامات سے بچنے کیلئے FATFکے 27نکاتی پلان پر عمل کررہی ہے جبکہ بھارت پاکستان کو ’’بلیک لسٹ‘‘ میں شامل کرانے کیلئے سرگرم عمل ہے۔ FATFکے جوائنٹ ورکنگ گروپ کے مطابق پاکستان نے 27میں سے 10شرائط پر عملدرآمد کیا ہے اور 13شرائط کی تکمیل ہونا باقی ہے جن کا تعلق دہشت گردوں کی مالی مدد روکنے اور کالعدم تنظیموں کے خلاف قوانین کو بہتر بنانے سے تھا جس کیلئے حکومت کو اب تک کئی قانونی ترامیم بھی کرنا پڑیں جن میں 24جولائی 2018سے اندرون ملک کیش کرنسی کی نقل و حرکت اور اوپن اکائونٹ پر پابندی لگانا ہے۔ FATFکی دیگر شرائط میں بینکنگ نظام اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی قوانین میں تبدیلی، ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک میں باہمی تعاون کا معاہدہ اور اس پر عملدرآمد، نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی کی بحالی، بینکوں میں بےنامی اکائونٹس کا خاتمہ، اکائونٹ ہولڈرز کی جانکاری، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کا بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے تعاون، ایف بی آر، نیب اور اینٹی نارکوٹکس فورس میں قانونی اصلاحات اور باہمی تعاون، کالعدم تنظیموں جن میں جیش محمد اور القاعدہ بھی شامل ہیں، کے خلاف کارروائی اور اُن کے اثاثوں پر کریک ڈائون وغیرہ شامل ہے۔ پاکستان کے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001، فارن ایکسچینج ریگولیشن، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ اور پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ءکے تحت بیرون ملک سے بینکنگ چینل کے ذریعے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم بغیر ذرائع آمدنی پوچھے قانونی تسلیم کی جاتی تھیں لیکن اب بلااجازت بیرون ملک سے زیادہ سے زیادہ 50لاکھ روپے سالانہ بھیجے جاسکتے ہیں۔یاد رہے کہ دنیا کے دیگر ممالک بھی منی لانڈرنگ، دہشت گرد فنانسنگ روکنے اور شفافیت کیلئے اپنے قوانین تبدیل کررہے ہیں جس میں برطانیہ اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے حالانکہ دبئی فری مارکیٹ کا علمبردار ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ پاکستان نے ’’گرے لسٹ‘‘ سے نکلنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے ہیں لہٰذاFATF کا پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا اب کوئی جواز نہیں۔

منی لانڈرنگ تمام جرائم کی ماں ہے، بدقسمتی سے ملک کے حکمراں بھی منی لانڈرنگ میں ملوث رہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ FATFکے 35ممبر ممالک، پاکستان کے حالیہ اقدامات اور قانونی ترامیم سے مطمئن ہوں گے۔ گزشتہ سال جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کی گرفتاری اور اُنہیں عدالت سے 5سال قید کی سزا کے علاوہ ملک میں جماعت الدعوۃ اور جیش محمد کی زیر نگرانی چلائے جانے والے مدارس کو حکومتی تحویل میں لینا اِسی سلسلے کی کڑی ہے لیکن FATFکے ترامیمی قوانین پر عملدرآمد کے دوران ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یہ قوانین منی لانڈرنگ اور دہشت گرد فنانسنگ روکنے کے بجائے ملکی آئین اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی یا اِن قوانین کی آڑ میں کوئی سیاسی انتقام تو نہیں؟

تازہ ترین