• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کی صورت بدلنے یا کایا پلٹ کے لئے وفاقی اور سندھ حکومت نے ایک مشترکہ ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا ہے، جس پر عمل درآمد کے لئے مالیاتی وسائل نہیں ہیں۔ صرف میڈیا کو یہ بات رٹوائی گئی ہے کہ ’’کچھ طاقتور کراچی کی صورت بدلنا چاہتے ہیں، وہی سارے وسائل مہیا کریں گے‘‘۔ یہ نہیں بتایا جا رہا کہ جنہوں نے کراچی کو برباد کیا تھا، کیا وہ پیچھے ہٹ گئے ہیں اور جو نئے اُن کی جگہ لینا چاہتے ہیں، وہ کون ہیں اور اب تک انہوں نے کراچی کی تباہی و بربادی روکنے کے لئے کیوں کردار ادا نہیں کیا؟

لوگوں کو اس بات سے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں کراچی کے ساتھ کوئی نیا کھلواڑ تو نہیں ہو رہا کیونکہ اس کی صورت بدلنے کے لئے کچھ نادیدہ طاقتوں کی بات ہو رہی ہے۔ کراچی کے ساتھ بہت ہو گیا ہے۔ یہ کراچی کی صورت کیا بدلیں گی، وہ کراچی کو اپنی اصل صورت میں بحال کرنے دیں کیونکہ یہ شہر اپنی صورت بگاڑنے والوں سے اب بےپناہ نفرت کرنے لگا ہے اور اپنی عظمت کی بحالی کے لئے سخت بےچین ہے۔

ہم نے وہ کراچی دیکھا ہے، جس کی سڑکیں روزانہ کی بنیاد پر دھلتی تھیں۔ ہم ٹرام اور ڈبل ڈیکر بسوں میں سفر کرتے تھے۔ جدید اور قدیم فن تعمیر کی شاہ کار کراچی کی عمارتیں چمک رہی ہوتی تھیں۔ اسٹریٹ لائٹس سے سارا شہر جگمگا رہا ہوتا تھا۔ میں نے خود ناظم آباد کی اسٹریٹ لائٹس میں پڑھا ہے۔ ہم نے سرکاری تعلیمی اداروں کا وہ معیار تعلیم دیکھا ہے، جو آج کے مہنگے ترین پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا بھی نہیں ہے۔ ہمارے ذہنوں میں کبھی یہ بات بھی نہیں آتی تھی کہ پرائیویٹ اسپتالوں میں بھی علاج ہوتا ہے۔ یہ شہر اپنی خوبصورتی اور بہترین بلدیاتی انتظامات کی وجہ سے انتہائی پُرکشش تو تھا ہی مگر اس سے زیادہ اس شہر کا حسن اس کی متنوع ثقافت تھی۔ ہم نے 1970ءکے عشرے تک اس شہر کا دن بدن عروج دیکھا۔ 1980ءکی ابتداء تک یہ شہر اپنی فی کس آمدنی کے اعتبار سے جنوبی ایشیاء کا امیر ترین شہر تھا۔ خوشحالی، مختلف نسلوں اور لسانی گروہوں کے درمیان ہم آہنگی، خوبصورتی، وسعت، بجلی، گیس، پانی اور دیگر وسائل کی فراوانی کے لئے کراچی مشہور تھا۔ 1980ءکے عشرے کی ابتداء تک کراچی ایئر پورٹ اور بندرگاہ پر اس خطے کا سب سے زیادہ فضائی اور بحری ٹریفک تھا اور یہ جنوبی ایشیاء کا مصروف ترین تجارتی مرکز تھا۔ اس وقت بھی کراچی ملک کو 425ارب ٹیکس کی مد میں دیتا ہے اور اسکو بمشکل 5فیصد ملتا ہے۔ میں کراچی میں نہیں رہتا بلکہ کراچی مجھ میں رہتا ہے۔مضبوط اور ترقی کرتی ہوئی معیشت، جاندار متنوع سماج اور بھرپور سیاسی شعور نے ’’کچھ‘‘ ملکی اور بین الاقوامی قوتوں کو اپنا دشمن بنا لیا اور 80کی دہائی میں اس شہر کی بربادی کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کام کا آغاز ہوا۔ اس شہر کی بربادی سے خطے کے دیگر شہر یا تجارتی مراکز قائم ہوئے اور ساری دولت اور تجارت وہاں منتقل ہو گئی۔ بیرونی طاقتوں نے کراچی کی بربادی کیلئے کچھ مقامیوں پشت پناہی کی اور مقامیوں کو یہ فائدہ ہوا کہ کراچی انہیں سیاسی طور پر چیلنج کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اِس گٹھ جوڑ سے کراچی میں آگ و خون کا کھیل جاری رہا اور کراچی زندگی سے عاری، دنیا کا گندا ترین شہر بن گیا۔ اب اس کراچی کی کیا صورت بدلی جائیگی۔ اگر کوئی اس شہر سے مخلص ہے تو وہ اسے اپنی صورت بحال کرنے دے۔

اس کے لئے سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ کراچی کی سیاست میں مداخلت ختم کی جائے۔ کراچی کا فیصلہ کراچی کے عوام پر چھوڑ دیں۔ آزادانہ سیاست سے نسلی، لسانی، مسلکی، مذہبی، طبقاتی اور دیگر تضادات از خود حل ہو جائیں گے۔ کراچی کثیر اللسانی شہر ہے۔ یہاں مختلف گروہوں نے ایک ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ وہ مصنوعی تضادات کو رد کر چکے ہیں۔ کراچی تمام گروہوں کی سیاسی نمائندگی والا سیاسی راستہ خود اختیار کر لے گا۔ صرف اس کے سیاسی عمل میں مداخلت نہ ہو۔ دوسرا اہم کام یہ ہونا چاہئے کہ کراچی کو پہلے والا مضبوط بلدیاتی نظام ملنا چاہئے، جو قیام پاکستان سے پہلے تھا اور قیام پاکستان کے بعد تین عشروں تک رہا۔ کراچی میں لسانی، نسلی اور دیگر گروہی تضادات کے حل کے لئے کراچی اور لاہور کے میئر کا انتخاب براہ راست کیا جائے اور صحیح اور غیرجانبدار censusہونا چاہئے۔ یہ کراچی کی بحالی کے لئے اہم اقدام ہوگا۔ تیسرا اہم کام یہ ہونا چاہئے کہ کراچی میں کام کرنے والے تمام ترقیاتی ادارے واٹر بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی وغیرہ میئر کے ماتحت ہوں۔ ماسٹر پلان کیلئے کراچی کا ایک مضبوط ادارہ بھی میئر کے ماتحت کام کر رہا ہو۔ چوتھا اہم کام یہ ہونا چاہئے کہ جو ترقیاتی پیکیج دیا گیا ہے، اس کی نگرانی اور عمل درآمد خود سیاسی جماعتیں اور منتخب حکومتیں کریں اور اس کیلئے وسائل کی فراہمی کا بھی خود انتظام کریں، کسی اور کی طرف دیکھنے یا اس پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس تمام ترقیاتی پیکیج کو میئر کے انڈر ہی ہونا چاہئے۔ واٹر سپلائی، سیوریج اور ٹریٹمنٹ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، سڑکوں کی تعمیر، ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ کے جو منصوبے دیے گئے ہیں ان کو مزید بہتر بنانے اور کم لاگت سے مکمل کرنے کے لئےماہرین کی رائے لی جائے اور اس پیکیج میں فن و ثقافت کی ترقی کے لئے شہر میں مزید آرٹس کونسلز، کلچرل سینٹرز، آرٹ گیلریز اور تھیٹرز وغیرہ کی تعمیر شامل کی جائے کیونکہ اس شہر کو موت اور بربادی کے خوف سے نکالنا ہے۔ کراچی کو اب اگر گروہی سیاست سے کنٹرول کرنے کی مزید کوششیں کی گئیں تو پھر کراچی کسی سے بھی نہیں سنبھالا جا سکے گا۔

تازہ ترین