• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سزا یافتہ نواز شریف کو حکومت نے بتائے بغیر باہر بھیجا، واپس لانا بھی اسی کی ذمہ داری، اسلام آباد ہائیکورٹ

سزا یافتہ نواز شریف کو حکومت نے بتائے بغیر باہر بھیجا، واپس لانا بھی اسی کی ذمہ داری، اسلام آباد ہائیکورٹ


اسلام آباد (نمائندہ جنگ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری کی کائونٹی کورٹ کے ذریعے تعمیل کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ سزا یافتہ نواز شریف کو حکومت نے بتائے بغیر باہر بھیجا،واپس لانا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔وفاقی حکومت نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالا۔

سزا یافتہ مجرم کی حوالگی کا آرڈر جاری نہیں کرینگے ،یہ وفاقی حکومت کی صوابدید ہے وہ جو بھی کرے ہم پورے طریقہ کار پر چلیں گے ،سزا یافتہ شخص باہر چلا گیا،جہاں اپیلیں زیر سماعت ہیں اس عدالت سے پوچھنے یا بتانے کی زحمت تک نہ کی ، اب واپسی کیلئے اقدامات بھی حکومت نے ہی کرنے ہیں۔

منگل کو عدالت عالیہ اسلام آباد کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اخترکیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے العزیزیہ سٹیل ملز اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیلوں کی سماعت کی۔ میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی بجائے ان کے جونیئر منور دگل ایڈووکیٹ نے کیس کی پیروی کی جبکہ نیب کی طرف سے پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ پیش ہوئے۔

 اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نوازشریف کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے لئے تین ذرائع استعمال کئے ، پاکستانی ہائی کمیشن کے قونصلر اتاشی رائو عبدالحنان وارنٹ کی تعمیل کے لئے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ گئے تو یعقوب نامی شخص نے وارنٹ گرفتاری وصول کرنے سے انکار کیا۔ 

برٹش رائل میل سے بھجوائے گئے وارنٹ گرفتاری حسن نامی شخص نے وصول کئے ، نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری برطانوی کامن ویلتھ آفس کو بھی بھجوا دئیے ہیں جو کاوئنٹی کورٹ سے وارنٹ کی تعمیل کرائے گی۔ 

اگر عدالت حکم دے تو نواز شریف کی حوالگی کی کارروائی کرینگے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا وفاقی حکومت کی ذمہ داری نہیں انہیں واپس لانا؟ کیا وفاقی حکومت نے ہی نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالا؟

 20 ہزار صفحات اپیل کے پڑے ہیں جن پر ہم نے فیصلہ کرنا ہے ، ملزم کی حاضری ہی نہیں ہو پا رہی کہ آگے بڑھیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہاں سزا یافتہ شخص باہر چلا گیا ، عدالت کو پوچھنے یا بتانے کی زحمت تک نہ کی۔ کیا حکومت بھی ہمیں نہیں بتا سکتی تھی؟

 ہم نے نواز شریف کو باہر بھیجنے کا حکم نہیں دیا۔ ہم کوئی حکم نہیں دیں گے کہ ملزم کی حوالگی کا معاہدہ کریں ، یہ وفاقی حکومت کی صوابدید ہے وہ جو بھی کرے ہم پورے طریقہ کار پر چلیں گے ، کل کو نوازشریف یہ نہ کہیں مجھے پتہ نہیں تھا۔ 

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر وارنٹ کی تعمیل کے لئے جانے والے پاکستانی ہائی کمیشن کے افسر کو بلا کر بیان ریکارڈ کر لیا جائے تو کائونٹی کورٹ کی رپورٹ کا انتظار کئے بغیر بھی نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کی جا سکتی ہے۔ 

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پھر تو اس افسر کو ڈیڑھ لاکھ کا ٹکٹ اور آنے جانے کا ٹی اے ڈی اے بھی دینا پڑیگا۔ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے کہ وہ بیان تو ہم وڈیو لنک کے ذریعے بھی ریکارڈ کر سکتے ہیں مگر آفیشل ڈاکومنٹ کا انتظار کر لیتے ہیں۔ 

ہدایات لے کر بتا دیں کہ تعمیل میں کتنا وقت لگے گا؟عدالت نےاستفسار کیا کہ خواجہ حارث کیوں پیش نہیں ہوئے؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ ہماری رائے ہے کہ نوازشریف کا حق سماعت عدالت ختم کرچکی۔ 

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے کہا تھا نواز شریف کے وکیل کا بھی کام ہے کہ وہ ان کی حاضری یقینی بنائیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کاونٹی کورٹ کے ذریعے بھی وارنٹس کی صرف سروس ہو گی ، نواز شریف کی واپسی میں پیچیدگی ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ موجود نہ ہونا ہے۔

اگر ہم چاہیں گے تو اس پر معاہدے کی طرف جائیں گے۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کاونٹی کورٹ کے ذریعے وارنٹس کی تعمیل کو کتنا عرصہ درکار ہے؟ 

جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کاونٹی کورٹ کو وارنٹس بھیجنے کا ایک پورا طریقہ ہے اس پر چلنا ہو گا۔ اس موقع پر دفتر خارجہ کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ کوئی وقت ابھی نہیں بتایا جا سکتا کہ کتنا وقت لگے گا۔ نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کے خاندان کا ایک فرد وارنٹس وصول کر چکا ہے ۔

اب عدالت نواز شریف کے اشتہار جاری کر سکتی ہے ، آج مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلیں سماعت کے لئے مقرر ہیں ، زیادہ سے زیادہ آج تک کا وقت دیا جا سکتا ہے ، کاونٹی کورٹ سے وارنٹس کی تعمیل کی مدت کا آج تک تعین کر لیں ، ہماری استدعا تو یہ ہے کہ اشتہار جاری کر دیئے جائیں، عدالت چاہے تو نواز شریف کو آج ہی مفرور قرار دے سکتی ہے۔

کارروائی پوری کرنا اشتہاری قرار دینے کے لئے ضروری ہوتا ہے، نیب قانون کی سیکشن 17 سی کے تحت عدالت کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکتی ہے۔ اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا دفتر خارجہ کل تک بتا سکتا ہے کہ کاونٹی کورٹ سے وارنٹس بھیجنے میں کتنا وقت لگے گا؟

دفتر خارجہ کے نمائندہ نے عدالت کو بتایا کہ میں ہائی کمیشن سے رائے لینے کے بعد ہی کچھ بتا سکوں گا۔ 

اس موقع پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو طے ہے کہ نواز شریف کو اپنے خلاف کارروائی کا علم ہے ، یقیناً خواجہ حارث نے بھی نواز شریف کو صورتحال سے آگاہ کیا ہوگا، مگر ہم زبانی معلومات پر آگے نہیں بڑھیں گے۔ 

اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر مظفر عباسی نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کے علم میں ہے کہ ان کیخلاف کارروائی جاری ہے۔ اس پر عدالت نے مذکورہ احکامات جاری کرتے ہوئے سماعت آج تک ملتوی کر دی۔       

تازہ ترین