• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جو قربانیاں اس وقت اے این پی دے رہی ہے پنجاب میں رہنے والے شاید اس سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہیں۔ یہاں تو کھمبوں پر فلیکس چمک رہے ہیں، کارنر میٹنگز جاری ہیں، نمائند گان جلسے بھی کر رہے ہیں۔ لیکن خیبر پختونخواہ اور کراچی میں جو خون کی ہولی اے این پی کے ساتھ کھیلی جا رہی ہے وہ واقعی بہت پریشان کن ہے۔ اگر پشاور میں اے این پی اپنے جلسے نہیں کر سکتی، اگر اس کے امیدوار کارنر میٹنگز نہیں کر سکتے تو پھر موجودہ انتخابات کے شفاف ہونے پر ضرور انگلی اٹھے گی۔ کچھ ایسی ہی صورتحال کراچی کی ہے جہاں اے این پی کے ساتھ ساتھ متحدہ قومی موومنٹ کے بھی بہت سے کارکن ہلاک ہو چکے ہیں۔ بلوچستان کی صورتحال بھی ابتر ہے اور اگر ایسی ہی صورتحال رہی بلکہ اگر ان دھماکوں میں اضافہ ہوتا گیا تو پھر یہ آوازیں بھی اٹھیں گی کہ سوائے پنجاب کے باقی صوبوں کے الیکشن میں سب پارٹیوں کو آزادانہ فضا میسر نہیں ہو رہی۔ حالات اس قدر خراب ہیں کہ بلاول بھٹو کہاں چھپے بیٹھے ہیں کسی کو کچھ خبر نہیں۔ ان کی پارٹی بھی الیکشن میں ڈرے ڈرے انداز میں اتر رہی ہے۔ اسفندیار ولی (سہمے) ہوئے بیٹھے ہیں اور اب تک اپنی پارٹی کے لئے کسی جلسے میں جانے سے گھبرا رہے ہیں۔ غلام احمد بلور نے ہمت کی اور نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔ بشیر بلور کے مارے جانے کے بعد دشمن اب ان کی جان کے درپے ہیں۔ ایسے میں ان کا باہر نکل کر کارنر میٹنگ کرنا یا جلسہ کرنا ناممکن ہے۔ ایسے میں جو ذمہ داری نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو اور ان کی حکومت پر عائد ہوتی ہے وہ اسے پورا کرنے سے باکل قاصر ہیں بلکہ ناکام ہیں۔ مجھے یاد ہے الیکشن سے کچھ دن قبل لاہور میں ہماری حیدر عباس رضوی، رضا ہارون اور رشید گوڈیل صاحب سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ بعض پارٹیوں کو کھلی چھوٹ جبکہ بعض کوانتخابی مہم چلانے میں دشواری ہو گی اور اگر اس کا تدارک نہ کیا گیا تو الیکشن ملتوی کروانے کے لئے زور بڑھے گا۔
اس سب کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف پورے زور و شور سے اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ حالیہ اکانومسٹ کے شمارے نے اگرچہ پاکستان میں خراب صورتحال کا ذکر کیا ہے لیکن ان کے خیال میں اس سب کے باوجود الیکشن ہو جائیں گے۔ انہوں نے الیکشن جیتنے کے لئے مسلم لیگ (ن) کی بے تابی کا بھی ذکر کیا ہے اور کچھ سروے کا بھی۔ اس میں خاص طور پر فروری میں کئے جانے والے ایک سروے کا ذکر ہے کہ جس کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت بڑھ کر اب 59% ہو چکی ہے۔ اکانومسٹ کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سابقہ ادوار جن میں وہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا حصہ رہی انہوں نے موٹر وے، میٹرو بس ایسے منصوبے شروع کئے جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت عام پاکستانیوں میں بڑھی۔ لوگ اپنے ووٹ کے لئے ان پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ اکانومسٹ کے علاوہ کچھ دیگر سروے بھی اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اگلی حکومت یقینا مسلم لیگ (ن) کی ہو گی۔ یہ اکثریت کتنے بڑے مارجن کی ہو گی اس کے بارے میں اگرچہ دعوے اور تخمینے مختلف ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شرطیں لگانے والے مسلم لیگ (ن) کو 110 سیٹیں دے رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کو 50-60 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ تقریباً اتنی ہی سیٹیں پی پی پی کو مل سکتی ہیں۔ اے این پی اور ایم کیو ایم کی سیٹوں کے حوالے سے لوگ حتمی طور پر جانتے ہیں کہ ان کی سیٹیں اپنے علاقوں میں پکی ہیں۔ اس حوالے سے لوگ سمجھتے ہیں کہ غلام احمد بلور کو عمران خان پر سبقت حاصل ہے اور وہ اپنی سیٹ ضرور جیت جائیں گے۔ عمران خان اس وقت قومی اسمبلی کے4حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
غلام احمد بلور کے علاوہ راولپنڈی سے حنیف عباسی ان کے مقابلے میں جیت سکتے ہیں۔ لاہور میں وہ حلقہ 122 سے امیدوار ہیں اور ابھی تک انہوں نے اس حلقے سے اپنی انتخابی مہم شروع نہیں کی۔اس حلقے کا حال یہ ہے کہ 2سکولوں میں ہم نے سروے کئے کہ لوگ کس کو ووٹ دیں گے۔ سکول کی ٹیچنگ سٹاف کی اکثریت عمران خان کو ووٹ دینا چاہ رہی ہے لیکن آیا، چپڑاسی، چوکیدار وغیرہ سب (ن) لیگ کے حامی نظر آتے ہیں۔ حلقے میں مڈل کلاس کے لوگوں میں عمران کا گراف کافی اونچا ہے لیکن لوئر مڈل کلاس اور کاروباری طبقے سے متعلق لوگ (ن) لیگ کے حامی ہیں یہاں مقابلہ کافی سخت ہے۔
اکانومسٹ کے سروے کے مطابق (ن) لیگ اس وقت الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہے لیکن ملک کو درپیش بڑے اور سنگین مسائل اس کے آگے منہ کھولے کھڑے ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) ماضی میں آرمی سے الجھتی رہی ہیں لیکن امید یہ ہے کہ اس بار وہ اپنے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے اشفاق پرویز کیانی صاحب جو نومبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں ، سے الجھنے سے گریز کرے گی۔ اگرچہ یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہو گا کہ سکیورٹی پالیسی اور فارن پالیسی کون بنائے گا اور اس پر کس کی گرفت ہو گی۔ معیشت کو بہتر بنانے کے لئے مسلم لیگ (ن) کو فوری طور پر آئی ایم ایف سے ڈیل کرنا پڑے گی اور پھر عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان جو مخاصمت ہے اس کو کیسے ٹھیک کیا جائے گا۔ یہ سب سوال اپنی جگہ کافی اہم ہیں۔
تازہ ترین