• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اندھیر نگری، چوپٹ راج، جرگہ سسٹم کا نیا قانون

سندھ کے متعدد اضلاع خصوصا صوبہ بلوچستان کی سرحدی پٹی سے ملحقہ اضلاع میں سرداری نظام اور غلط رسم و رواج کا زیادہ ہی اثر پایا جاتا ہے۔اس میں قتل کا بدلہ قتل اور چور کے قتل کا خون بہا شامل ہے۔ ماضی میں چور کے قتل کا کوئی خون بہا نہیں ہوتا تھا۔علاقے کے سرداروں نے چور کی ہلاکت کا فیصلہ کرکے چوروں کے ورثا کو لاکھوں روپیہ کا معاوضہ دلواکر ایسی روایت ڈال دی۔ اب اس رسم و رواج کے تحت چوروں کی ہمت بڑہ گئی اور اور ایسے واقعات بڑھتےگئے۔کئی واقعات میں چوروں کی فائرنگ میں اہل خانہ ہلاک ہوئے ،لیکن اس کے عوض کوئی رقم نہیں دی گئی۔ اگر چور ہلاک ہوا تو علاقے کے معتبرین اور معززین چوروں کا ساتھ دیتے ہیں اور چور کے ورثا بھی معاوضہ ملنے تک خبر نہیں کرتے۔

اگر کوئی معاوضہ دینے سے انکار کرے تو چور کے ورثا قتل کا بدلہ چکاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ٹھل میں پیش آیا۔ ڈیڑھ ماہ قبل ٹھل تھانے کی حدود کندھکوٹ روڈ پر باگڑلاڑو پولیس پکٹ کے قریب موٹر سائکلوں پر سوار 6 مسلح افراد نے فائرنگ کرکے19 برس کے نوجوان طالب علم اعجاز احمد سومرو کو ہلاک کردیا اور گولیاں چلاتے ہوئے فرار ہوگئے۔ حیرت انگیز طور پر یہ واقعہ پولیس چوکی سے ایک کلو میٹر کے مفاصلے پر پیش آیا اور پولیس دیکھتی رہ گئی ۔ پولیس نے نہ تو مزاحمت کی اور نہ ہی ان کا راستہ روکا۔ ملزمان واردات کے بعد پولیس پکٹ کراس کرکے آسانی سے فرار ہوگئے۔ 

پولیس نےصرف اس لیے مزاحمت نہیں کی کہ جائے واردات ٹھل کے تھانے اے سیکشن کی حدود میں ہے، جب کہ پولیس پکٹ ٹھل کے تھانے بی سیکشن کی میں ہے۔فرق حد کی وجہ سے ملزمان پکڑے نہیں گئےاور اب تک پولیس ان میں سے کسی ایک ملزم کو بھی پکڑنے میں کام یاب نہیں ہوسکی،جس کے لیے ٹھل کی سیاسی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے مسلسل احتجاج بھی کیا جارہا ہے ۔ واقعے کی ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود ملزمان کی عدم گرفتاری سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس اس مسئلے پر دل چسپی لینے کےبجائے روایتی سستی کا مظاہرہ کر رہی ہے، جس سے نہ صرف پولیس اپنا اعتماد کھو رہی ہے، بلکہ ورثا سے بھی بد دعا لے رہی ہے، کیوں کہ ورثا کو ابھی تک انصاف نہیں مل سکا ، جس کے باعث ورثا پولیس کو بد دعائیں دینے پر مجبور ہیں۔

بددعائیں تو قاتلوں کو بھی مل رہی ہیں، جنہوں نے ایک بے گناہ نوجوان کو قتل کیا، جس کا نہ لینا نہ دینا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس نوجوان کا قتل سات ماہ قبل ہونے والے، گلزار احمد سومرو میں اہل خانہ کی فائرنگ سے ایک چور غلام یاسین میرانی کی ہلاکت کا بدلہ ہے۔مقتول چور کے ورثا اور ساتھی چوروں نے مل کر نوجوان طالب علم اعجاز احمد سومرو کو قتل کرکے اپنے ساتھی چور کے قتل کا بدلہ چکایا۔دیکھا جائےتو مقتول نوجوان طالب علم کا چور غلام یاسین میرانی کو قتل کرنے والوں سے قریبی رشتے داری تو اپنی جگہ، لیکن دور کے رشتے داری بھی نہیں، ان کا گاؤں صاحب ڈنو سومرو ہی اور جس گاؤں میں چور ہلاک ہوا، اس گاؤں کا نام گلزار سومروہے، جو ایک دسرے سے دو کلو میٹر دورہے صرف قبیلہ ایک ہے۔ قبیلہ مجرم نہیں ہوتا۔

ایک ہی قبیلے کےناتے بے گناہ کا قتل بڑا المیہ ہے، کسی جرم کا بدلہ مجرم ہی سے لینا اچھا لگتا ہے۔قانون بھی سزا مجرم کو ہی دیتی ہے، مجرم کے کسی رشتے دار کو جو جرم میں ملوث نہ ہو ان کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ اس طرح جو جرم میں ملوث نہ ہو ان کو قتل کرنا، وہ بےگناہ قتل ہوگا۔اس لیے پولیس کو چاہیے کہ بےگناہ قتل کرنے والے ملزمان کو فی الفور گرفتار کرکے سخت سزا دی جائے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین