لندن ( پی اے ) سپریم کورٹ کے نئے صدرلارڈ ریڈ نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اعلیٰ ترین برطانوی عدالت میں مزید ڈائیورسٹی ہونی چاہئے۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ چھ سال بعد ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل نسلی اقلیتی پس منظر کے حامل ایک جسٹس کی تقرری کر دی جائے گی۔لارڈ ریڈ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے 12 جسٹسز میں ڈائیورسٹی کی کمی ایسی صورت حال ہے ’’ جوکہ برقرار رہی تو شرمندہ نہ ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ‘‘۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہائی کورٹ یا اعلیٰ عدالت میں تعینات کئے گئے نسلی اقلیتی پس منظر کے حامل سنیئر ججوں کی تعداد صرف 4 فیصد ہے۔ اس تعداد میں 2014 کے مقابلے میں لوئر کورٹ ججز میں 8 فیصد اور ٹریبونل ججز میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے جوکہ دونوں صورتوں میں 2 فیصد اضافہ ہے۔ لارڈ ریڈ نے سپریم کورٹ کے صدر کا عہدہ لیڈی ہیل کی ریٹائرمنٹ پر سنبھالا ہے۔اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے میڈیا انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ سیاہ فام افراد بھی بیرسٹر ہو سکتے ہیں، جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا ایک سیاہ فام ، ایشیائی یا نسلی اقلیتی پس منظر کے حامل کسی جسٹس کی عدالت میں تقرری کی جا سکتی ہے، لارڈ ریڈ نے بی بی سی کو جواب دیا کہ مجھے امید ہے کہ آئندہ چھ سال میں میری ریٹائرمنٹ سے قبل ایسا ہو جائے گا۔ لارڈ ریڈ نے کہا کہ ’’ گزشتہ ماہ سیاہ فام بیرسٹر الیگزینڈرا ولسن سے ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں ایک ہی صبح تین مرتبہ غلط سلوک کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ الیگزینڈرا ولسن خداداد صلاحیتوں کی مالک ایک نوجوان وکیل ہیں، انہوں نے آکسفورڈ سے گریجویشن کیا اور بے شمار سکالر شپس حاصل کیں، ان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کو کم سے کم الفاظ میں بھی انتہائی مایوس کن کہا جا سکتا ہے۔ ان کے ساتھ ہونے والے ’’ قطعی ناقابل قبول سلوک ‘‘ پر ہر میجسٹی کی کورٹ اینڈ ٹریبونلز سروس نے معافی طلب کی۔ان سے جنوبی ایشیائی ورثہ کے حامل ایک جج کے بارے میں سوال کیا گیا جن سے عدالت کے کلرک نے متعدد بار بدسلوکی کی، انہوں نے کہا کہ یہ نظرانداز کئے جانے کی نچلی ترین سطح اور تعصب ہے جس کا کورٹس سروس کی جانب سے خاتمہ کیا جانا چاہئے۔ جیوڈیشری کے لئے ڈائیورسٹی بدستور ضد سے مختلف ایک ایشو ہے جسے عموماً باسی ، نر اور پیلے کے طور پر دیکھا جاتاہے۔ اس کے برعکس خواتین کی نمائندگی بہتر مگر اب تک غیر مساوی ہے۔ فی الوقت 32 فیصد کورٹ ججز اور 47 فیصد ٹریبونل ججز خواتین ہیں۔حالیہ برسوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے مگر ہائی کورٹس اور مزید سنیئر ججز کی حیثیت سے خواتین کی تعداد صرف 26 فیصد ہے۔