• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالائی کاراباخ میں آرمینیا اور آذربائیجان کی جنگ دوسرے ہفتے میں داخل ہو گئی ہے۔ آذربائیجان نے کئی مقبوضہ علاقے آزاد کرا لئے ہیں۔ دارالحکومت باکو میں جشن کا سماں ہے۔ آذری قومیت کو نئی مہمیز مل رہی ہے جس سے مستقبل میں علاقے میں نئے اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں، خاص کر ایران کیساتھ جہاں لاکھوں آذری آباد ہیں۔ ماضی قریب میں گریٹر آذربائیجان کا نعرہ بھی لگا ہے جسے آذری قوم پرستوں میں کچھ پذیرائی بھی ملی مگر ایران اسے اپنے خلاف عالمی سازشوں کا تسلسل سمجھ رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم مسلک اور ہم مذہب ہونے کے باوجود ایران آذربائیجان تعلقات واجبی ہی ہیں۔ یہ الزامات بھی لگتے رہے ہیں کہ ایران کی اسلامی حکومت آذربائیجان کے بجائے آرمینیا کی حمایت کرتی ہے۔ آذربائیجان کے تئیں ایران کی سرد مہری کی ایک وجہ اسرائیل بھی ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے فوراً بعد آذربائیجان اور اسرائیل کے تعلقات قائم ہوئے اور دفاعی تعلقات اس قدر مضبوط ہیں کہ ملک کی پچاس فیصد دفاعی ضروریات اسرائیل پوری کرتا ہے۔ اسکے علاوہ ایران کو خدشہ ہے کہ اسرائیل ایران کے خلاف سازشیں کرنے کیلئے آذربائیجان کی سرزمین استعمال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں جب آذری ایرانیوں کی جانب سے سرحد پار اپنے لوگوں کی حمایت میں مظاہرے کئے گئے تو حکومت نے اسے پسند نہیں کیا اور اطلاعات کےمطابق کئی لوگ گرفتار بھی کئے گئے۔ ایران کے بعض ذرائع ابلاغ نے تو اپنی رپورٹوں میں کھل کر آرمینیا کی حمایت یا اسکی پوزیشن کا دفاع کیا۔ اِن وجوہات کی بنا پر آذریوں میں ایران کیخلاف دبے ہی سہی مگر مخالف جذبات کا ابھرنا یقینی ہے جس کو مستقبل میں بیرونی پشت پناہی سے ایران کیخلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مسلسل مطالبے کے باوجود آرمینیا آذربائیجان کے تسلیم شدہ علاقوں سے اپنے فوجی قبضے کو ختم کرنے پر راضی نہیں ہے کیونکہ ان علاقوں کی زیادہ تر آبادی آرمینیائی النسل عیسائیوں پر مشتمل ہے جو آرمینیا کیساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹتے ہی یہاں کے لوگوں نے آرمینیا کی مدد سے ایک خودمختار خطے کا اعلان کردیا اور آس پاس کے علاقوں سے آذری مسلمانوں کا قتل عام کرکے اور انہیں علاقہ بدر کرتے ہوئے مزید رقبے پر بھی قبضہ کرلیا۔ فی الوقت آذربائیجان کے بیس فیصد رقبے پر آرمینیا کا قبضہ ہے۔ نسل کشی کی ان کوششوں کی کھلے عام حمایت میں یورپ اور امریکا میں کثیر تعداد میں آباد آرمینیائی نژاد باشندے پیش پیش رہے ہیں حالانکہ وہ خود یہ دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ ماضی میں وہ سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں نسل کشی کا شکار ہوئے ہیں جن میں لاکھوں آرمینیائی ہلاک یا علاقہ بدر کئے گئے۔ نسل کشی کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے ترک حکومت آرمینیائی مسیحیوں کے قتلِ عام اور زیادتیوں کو تسلیم کرتی ہے مگر اسکے لئے وہ اسوقت کے کشیدہ سیاسی حالات کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے کیونکہ آرمینیائی اور دیگر مسیحی آبادیاں بھی ہم مذہب یورپی طاقتوں سے ملکر مسلمان آبادیوں کیخلاف تشدد میں ملوث رہیں جن میں خاص کر بلقانی مسلمانوں کے قتل عام کے سینکڑوں واقعات کے بعد وہاں سے لاکھوں مسلمانوں کو نکالا گیا تھا۔ سوویت یونین کی عملداری سے یہ تاریخی مخاصمت ستر سال تک آہنی پردے تلے دبی رہی مگر کمیونسٹ قبضے کے اختتام پر تشدد پھر اُبل پڑا جو اب ایک بار پھر جنگ کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ کاراباخ مسئلے کے دو اہم پہلوؤں کو اگر مسئلہ کشمیر کے تناظر میں دیکھا جائے تویہ چشم کشا ثابت ہو سکتے ہیں۔ اول یہ کہ پوری دنیا بالائی کاراباخ کو آذربائیجان کا حصہ تصور کرتی ہے اور اقوامِ متحدہ کی چار قرار دادیں بھی اسکی تصدیق کرتی ہیں۔ اسکے باوجود یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا اور آخرکار تین دہائیوں سے جاری تعطل جنگ کے ذریعے ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ دوم یہ کہ ہر ملک اپنی مذہبی، کلچرل یا مسلکی شناخت سے جڑے برادرانہ نعروں کے اظہار کے بجائے صرف اپنے مفادات کے تناظر میں فیصلے کررہا ہے۔ ترکی اور آرمینیا میں تاریخی مخاصمت کے بموجب ترک آذربائیجان کی سپورٹ کررہے ہیں۔ اسرائیل اپنی ایران مخالفت میں آذربائیجان کیساتھ ہے اور آذری بڑے پیمانے پر اسرائیلی اسلحہ کی وجہ سے ہی دشمن پر بھاری پڑ رہے ہیں۔ اسرائیل کے عرب حلیف خاموشی سے آرمینیا کی حمایت کررہے ہیں۔ روس جو تاریخی طور آرمینیا کا دوست اور تین دہائیوں سے اسکی سیکورٹی کا ضامن ہے، بھی اب لاتعلقی دکھا رہا ہے تاکہ ملک کی موجودہ امریکا نواز حکومت کو مزہ چکھایا جا سکے۔ صدارتی الیکشن میں گھرے امریکی صدر ٹرمپ کسی بھی صورت مداخلت کرکے روس کو اس موقع پر ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ ایسے حالات میں آرمینیا شہری آبادیوں اور تنصیبات پر حملہ کرکے جنگ کا دائرہ وسیع کرنے کیلئے کوشاں ہے تاکہ بین الاقوامی مداخلت کی راہ پیدا کی جاسکے جس سے شاید آذری پیش قدمی روکے جانے کی کوئی امید پیدا کی جاسکتی ہے۔

تازہ ترین