• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معلوم ہوتا ہے اور اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ اگر شریف برادران کے اعصاب پر تحریک انصاف سوار ہے تو تحریک انصاف کے اعصاب پر بھی شریف برادران ہی سوار دکھائی دیتے ہیں۔ سال 2012ء تک شریف برداران اس قدر واضع طور پر مستقبل قریب میں مملکت خدادادپاکستان پر اپنا سیاسی قبضہ دیکھ رہے تھے کہ عام انتخابات میں”سولو فلائٹ“ کے ذریعے بلا شرکت غیرے ایوان اقتدار میں لینڈ کرنے کا یقین رکھتے تھے مگر ممی ڈیڈی جینریشن کے ایک بھرپور جلسہ عام کے ذریعہ تحریک انصاف اس ووٹ بینک کو لوٹنے چلی آئی جس کو شریف برادران اپنی ذاتی اور خاندانی ملکیت سمجھتے تھے کیونکہ یہ اینٹی پیپلز پارٹی ووٹ بینک شریف برادران کو ان کے سرپرست جنرل ضیاء الحق عنایت فرما گئے تھے۔
بھٹو کی پھانسی کے بعد کے سیاسی دور کو پاکستان پیپلز پارٹی کی موافقت اور مخالفت کا زمانہ کہا جاتا ہے جو میوزیکل چیئرز کے زمانے کے طور پر بھی مشہور ہے۔ اس زمانے سے یہ لطیفہ بھی منسوب ہے کہ پولیس پیپلز پارٹی کے کسی کارکن کو گرفتار کرنے آئی تو ا س نے کہا کہ میں تو اینٹی پیپلز پارٹی ہوں۔ پولیس والوں نے کہا”جیسے بھی ہو، ہو تو پیپلز پارٹی کے“ اس لطیفے سے یہ سنجیدگی برآمد ہوتی ہے کہ آخری تجزئیے میں موافقت کے علاوہ مخالفت کا کریڈٹ بھی پیپلز پارٹی کو ہی جاتا ہے۔ اس لئے تو شاعر سیف الدین سیف نے کہا تھا کہ #
دشمن گئے تو کش مکش دوستی گئی
دشمن گئے کہ دوست ہمارے چلے گئے
بلا شبہ سلطان راہی کے قتل کا سب سے زیادہ نقصان مصطفی قریشی نے ہی برداشت کیا ہے اور سوویت روس کی تباہی کا سب سے زیادہ نقصان امریکہ برداشت کرنے پر مجبور ہوگا۔بہت سے ناظرین کو شریف برادران کے چھوٹے میاں اور تحریک انصاف کے عمران خاں کے سیاسی جلسوں کے ”مناظرے“ میں سلطان راہی اور مصطفی قریشی برسرپیکار دکھائی دیتے ہوں گے اور ان ناظرین میں سے کچھ نے انہیں عام انتخابی مہم کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا اور الیکشن کمیشن نے اس کا نوٹس بھی لے لیا تو چھوٹے میاں نے کہا کہ عمران خان کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے روکا نہ جائے کیونکہ اس خلاف ورزی سے عمران خان کا اصل چہرہ اور اصل دماغی حالت ظاہر ہوتی ہے جو اس کے چاہنے والوں کو بھی دکھائی دے سکتی ہے۔بہت سے ٹیلی ویژن چینل مذکورہ بالا نوٹس کو غیر ضروری سمجھتے ہیں ۔ان کی دانست میں اس بحث کے دوران کوئی بھی اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال نہیں کرسکتا بلکہ ایک شغل لگا ہوا ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی ، اے این پی اور متحدہ والے دہشتگردوں کی زد میں آئے ہوئے ہیں اور ان کی طرف سے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور بڑھکوں کا کھڑاک سنائی اور دکھائی نہیں دے رہا مگر جس طرح ووٹ بینک کی چوری کو جرم قرار نہیں دیا جاتا ویسے ہی پیپلز پارٹی، اے این پی اور متحدہ کے خلاف دہشتگردوں کے خون خرابے کو”پری پول دھاندلی“ قرار نہیں دیا جارہا ہے۔
تازہ ترین