ملکی تاریخ میں 11 مئی وہ دن ہو گا جب ایک منتخب حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد آئندہ منتخب حکومت کے لئے عوام ووٹ ڈالیں گے۔ جے یو آئی نے ہمیشہ ملکی آئین کے تحت پاکستان کے سیاسی نظام کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی حمایت کی ہے اور حوصلہ افزائی بھی کی ہے اور آج ایک بار پھر ہم انتخابی میدان میں ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ”ہم نے انسان کو عزت و احترام بخشا ہے“۔ احترام آدمیت، ہر شہری کو اس کا احترام دینا، اس کی آزادی کا تحفظ کرنا یہ جمعیت علمائے اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے، اسلام نے قومی وحدت کی طرف دعوت دی ہے، یہاں مسلمان بھی رہتے ہیں، غیر مسلم اقلیتیں بھی ہیں، مختلف مکاتب فکر بھی ہیں، مختلف قومیتیں بھی ہیں لیکن انہیں ایک قومی وحدت کی طرف بلانا قرآنی تعلیم ہے۔ ہماری واضح پالیسی یہی رہے گی کہ ہم ملک کے ہر شہری کو محترم سمجھیں اور ایک شہری کی حیثیت سے اس کی آزادی کا تحفظ کریں اور اسے ہم اپنی ذمہ داری تصور کریں گے۔
لیکن ہر فرد کا بنیادی حق قیام امن بھی ہے۔ پوری قوم اور قوم کے ہر فرد کا بنیادی حق ہے کہ اسے امن فراہم کیا جائے۔ پاکستان جسے اس تصور کے ساتھ حاصل کیا گیا تھا کہ یہ ایک فلاحی ریاست ہو گا، ماضی کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے یہ ملک ویلفیئر اسٹیٹ کے بجائے ایک سیکورٹی اسٹیٹ کا روپ دھار گیا۔ ضروری ہے کہ ہم ملک کے اندر قیام امن کو اولین ترجیح دیں کیونکہ امن ہی نام ہے انسانی حقوق کے تحفظ کا۔ اس حوالے سے ہمیں ملکی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی لہٰذا صرف نظام میں تبدیلی نہیں بلکہ ہمیں رویوں میں بھی تبدیلی لانی ہوگی۔
جمعیت علمائے اسلام کے وژن کی اساس اسلام کے آفاقی اصول ہیں جو جدیدیت کے تقاضوں کے ساتھ انسانی اور سماجی اقدار کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ اسی تناظر میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر قانون سازی ہمارے منشور کا بنیادی اور اہم نکتہ ہے کیونکہ ہمارا آئین کہتا ہے کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں ہونا چاہئے، اس کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جس کی سفارشات تمام مکتبہ فکر کے غور و خوض کے بعد بنی ہیں، پر چالیس سال سے قانون سازی نہیں ہو رہی، اس قانون سازی کو یقینی بنایا جائے گا۔
اصلاحات کی ضرورت اور گنجائش ہر وقت رہتی ہے، جمہوری حکومتوں میں حکومت تک پہنچنا انقلاب نہیں کہلایا جاتا بلکہ یہ تدریجی اصلاحات اور منزل کی طرف پیشرفت کا حصہ ہوتا ہے۔ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ جتنا جتنا ہم حکومت میں رہے ہیں اور حکومت کے اس نظام کے اندر جتنے جتنے مواقع ہمیں ملے ہیں ان مواقع کا اور اس کے علاوہ جو دوسری حکومتوں کا عرصہ گزرا ہے، ان کا موازنہ کیجئے اگر ہم جائز طور پر اس کے حقدار نہ بنیں تو ہمیں مسترد کر دیں۔ اس وقت بھی صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جہاں جہاں سے جمعیت علمائے اسلام کی نمائندگی ہے،وہاں وہاں نسبتاً امن ہے لہٰذا ہماری جو حصہ داری ہے اس حوالے سے ہماری کارکردگی کو دیکھا جائے تو نہ ہم نے انقلاب برپا کیا ہے نہ ہم مجموعی طور پر ملک کے مالک بنے ہیں لیکن جزوی شراکت کے تحت ہماری کارکردگی کو دیکھا جائے تو ہم اس کے جواب دہ ہیں۔
ہمیں اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کیلئے طاقت کے استعمال کے بجائے مذاکراتی عمل کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور مصالحتی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔ اس وقت ہمارا سارا ملک تقریباً شورش زدہ ہے ، فاٹا کی صورتحال بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت خراب کی گئی ہے، بلوچستان میں بالخصوص جو بلوچ علاقہ ہے وہاں پر عسکریت عروج پر پہنچ گئی ہے۔ ہمارا نوجوان اس قدر مایوس ہوگیا کہ پہلے وہ محرومیت کے احساس کیساتھ زندگی گزار رہا تھا، آج اسے غلامی کے احساس نے گھیر لیا ہے۔ آنے والے مستقبل میں اب شاید احساس محرومی کا خاتمہ کافی نہ ہو گا بلکہ احساس غلامی کو ختم کرنا ہوگا۔ جمعیت علمائے اسلام نے اس حوالے سے فاٹا کا ایک جرگہ تشکیل دیا اور اس حوالے سے پاکستان کی قومی قیادت کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، انتخابات کے بعد بھی جمعیت علمائے اسلام قبائلی جرگے کے ذریعے فاٹا میں قیام امن کے لئے اپنے اقدامات اور اپنا کردار جاری رکھے گی۔قیام امن کے بعد سب سے اہم چیز ہر فرد کیلئے معیشت کا مسئلہ ہے۔ لوگوں کو روزگار مہیا کرنا، مزدوروں اور کسانوں کو مراعات دینا اور اس وقت جو ہمارے غیر ضروری اخراجات ہیں، بالخصوص جو ہم پروٹوکول، انتظامی اور غیر ضروری اخراجات پر بجٹ کا بہت بڑا حصہ صرف کرتے ہیں اس میں ہمیں کمی لانی ہو گی۔ ہمارے پاس وسائل ہیں لیکن ہماری ملکی معیشت کا مدار اپنے وسائل پر نہیں بلکہ بین الاقوامی قرضوں یا بین الاقوامی امداد پر ہے۔ ہمیں ملکی معیشت کو مستحکم بنانے کیلئے ملکی وسائل پر انحصار کرنا ہوگا، انہیں منظم کرنا ہوگا اور انہیں بروئے کار لا کر ہمیں ملکی معیشت کو طاقتور بنانا ہو گا۔ ملکی وسائل کا اچھا نظم و ضبط ہمیں ایک اچھا بجٹ قوم کو دینے کے قابل بنائے گا جو کرپشن کے خاتمے کا بھی سبب بنے اور مہنگائی کے خاتمے کا بھی سبب بنے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ایک بہتر طرز حکمرانی ہو اور قانون کی بالادستی ہو۔ ہمیں اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا، ملکی سرمائے کے استعمال کو شفاف بنانا ہوگا، لالچ کا خاتمہ کرنا ہوگا، اپنی ذات کی نفی کرنی ہوگی تب قوم آباد ہوگی۔
ماضی میں سب سے زیادہ بحران جس سے عام آدمی شدت کیساتھ متاثر رہا ہے وہ بجلی کا بحران ہے، بجلی کی پیداوار ہمارے اپنے وسائل پر نہیں۔ ہمارے ہر یونٹ کی مالک اب اس وقت بین الاقوامی کمپنیاں ہیں، تجارتی کمپنیاں ہیں ۔ اس حوالے سے توانائی کی پیداوار کے ہدف کو حاصل کرنا ایک طویل المدت منصوبہ بندی کا تقاضا کرتا ہے لیکن عام آدمی کی صبح شام کی ضرورت طویل المدت منصوبہ بندی کا انتظار نہیں کیا کرتی، اس لئے فوری اقدامات کی بھی ضرورت ہو گی تاکہ فوری وسائل کے ذریعے سے توانائی کے ماحول میں ہم عام آدمی کی ضرورت کو سالوں میں نہیں مہینوں میں پورا کر سکیں۔ بجلی کے بحران کی وجہ سے ہمارے بہت سے پیداواری ادارے متاثر ہوئے ہیں، ان بیمار اداروں کو دوبارہ صحت مند بنانے، ان کی پیداواری صلاحیت کو بحال کرنے کیلئے فوری اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے، جمعیت علمائے اسلام اس صورتحال پر بھرپور نظر رکھے ہوئے ہے۔
جمعیت علمائے اسلام چھوٹے ڈیم بنا کر بجلی کی پیداوار کی حمایت کرتی ہے، ہم نے اپنی حکومت میں جہاں صوبے کو صرف 50میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی اجازت تھی، ہم نے 80میگاواٹ بجلی صوبے کے اپنے اخراجات پر بنائی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پہاڑوں سے جتنا پانی آرہا ہے اس کو ڈیم کی صورت میں محفوظ کرکے اس سے بجلی بنائی جاسکتی ہے،آج اگر پورا ملک تربیلا یا پورا کشمیر منگلا کا محتاج ہو جاتا ہے تو اس حوالے سے ہمیں چھوٹے ڈیم بنا کر وہاں پر بجلی بنانے کے رجحان کو بڑھانا ہوگا۔ جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے گزشتہ دس بارہ سالوں سے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی ہے ہی نہیں اور ہم آنکھیں بند کر کے باہر سے درآمد شدہ خارجہ پالیسی کی پیروی کرتے نظر آرہے ہیں ،ہم نے اس مقصد کیلئے پارلیمینٹ میں جنگ بھی لڑی۔ پرویزمشرف کے دور کی پالیسیوں کے خلاف ایک متفقہ قرارداد بھی وجود میں آئی،پارلیمینٹ کی قومی سلامتی کمیٹی نے خارجہ پالیسی کے رہنما اصول بھی وضع کئے لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ جمعیت علمائے اسلام کی رائے یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور پاکستان کے مفادات ہیں، ہم اپنے پڑوسی ممالک کیساتھ بہتر تعلقات کو ترجیح دیں گے، خارجہ پالیسی کے حوالے سے پارلیمینٹ کی رہنمائی کو یقینی بنایا جائے گا، پارلیمینٹ نے جو رہنما اصول وضع کئے ہیں ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔مسئلہ کشمیر کو ہم طے شدہ اصولوں کے مطابق طے کرنا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت اور پاکستان دونوں کو سنجیدگی کیساتھ ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ جمعیت علمائے اسلام کی رائے یہ ہے کہ کشمیری مایوس ہوتے چلے جار ہے ہیں اور ان کی مایوسی خطے میں ایک نئی مشکل جنم دینے کا سبب بن سکتی ہے۔
افغانستان کے مسئلے کا حل ہماری نظر میں مذاکرات ہی میں ہے، افغانستان کے اندر مذاکراتی عمل کا جو آغاز ہوا ہے ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ افغانستان میں جو 31سال سے جنگ جاری ہے، روز اول سے ہمارا اس پالیسی پر اختلاف ہے۔ ہم نے اس جنگ کو دہشت گردی کیخلاف جنگ تسلیم نہیں کیا ہے اگر یہ واقعی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جنگ ہے تو کیا تیرا سال گزرنے کے بعد اس کا خاتمہ ہو سکا؟ (جاری ہے)