• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل پرویز مشرف کے پاکستان جاتے وقت بیانات سے پاکستانی فلمی مولا جٹ اور نوری نت بھی یاد آئے اور ہندوستانی فلم شعلے کے گبّر سنگھ بھی۔ اس کے علاوہ وہ بھی یاد آئے جو لاطینی امریکہ کے فوجی ڈکٹیٹروں کی قطاروں میں تھے اور ان میں سے خاص طور پر چلی کے جنرل پنوشے جو ترقی پسند رہنما سلویڈور الیاندے کو قتل کرکے اقتدار میں آئے تھے اور آخری عمر میں در بدر بھٹکتے اور مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے مر گئے۔ پاکستان لاطینی امریکہ کے جمہوری ارتقاء کی بہت ہی بنیادی منازل طے کر رہا ہے اور ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
امریکی سیاست کی گردش گاہوں میں ہر بااثر سیاست دان مع جنرل کولن پاول کے ورطہ حیرت میں ہیں کہ جنرل مشرف کیا سوچ کر پاکستان واپس لوٹے۔ شاید وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ جنرل مشرف جیسے ڈکٹیٹروں کے لئے ”سوچنا“ غیر فطری عمل ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر فیس بُک اور ٹویٹر پر لاکھوں لوگ ان کے ساتھ منسلک ہو گئے ہیں تو وہ کراچی ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کرنے بھی آئیں گے اور بینظیر بھٹو کی وطن واپسی جیسا منظر تشکیل پاجائے گا۔ ان کو یہ علم نہیں کہ انٹرنیٹ کی دنیا خیالی ہے اور فیس بک پر ٹائپ کرنے والوں کے پاس سڑکوں پر آنے کے لئے نہ وقت ہے اور نہ ہی ہمت۔ انٹرنیٹ کی دنیا محض دلگی ہے اور اسے اس سے زیادہ سمجھنے والے کسی نہ کسی ابتلا کا شکار ہو کر رہیں گے۔
جنرل مشرف کو شاید علم نہیں کہ فوج کے سربراہ اور ملک کے صدر کی کرسی پر بیٹھے ہوئے دنیا کا نقشہ مختلف دکھائی دیتا ہے، تب تو ملک کا بڑا بڑا شاہ زور بھی آپ کی کاسہ لیسی کر رہا ہوتا ہے۔ غالباً انہوں نے پنجابی کا یہ مشہور محاورہ نہیں سنا ہو گا ”جیہدی کوٹھی وچ دانے اوہدے کملے وی سیانے“ (جس کی کوٹھڑی میں اناج بھرا ہوا ہو اس کے احمق بھی دانا دکھائی دیتے ہیں)۔ صدر مشرف کے اردگرد بھی اس طرح کے داناوٴں کی پوری فوج تھی جو ان کے اقتدار کی کوٹھڑی خالی ہوتے ہی دم دبا کر بھاگ گئی یا پھر کسی ”بھری کوٹھڑی“ والے کے دانا بن گئے۔
جنرل مشرف اور بہت سے دانشور یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان کی تاریخ ایک نیا موڑ لے چکی ہے اور تاریخ کے پہیئے کو واپس گھمایا نہیں جا سکتا۔ اگر مشرف کی طرح کا کوئی طالع آزما ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آخر کار پھانسی کا پھندہ اس کا منتظر ہوگا۔ آج کے بہت سے مشرف اس سے بخوبی وقف ہیں اور سیاست سے دور رہنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہی ان کیلئے بہتر ہے۔ وگرنہ اگر وہ جمہوری سیاسی عمل کو روک کر مشرف یا ضیاء بننے کی کوشش کریں گے تو چند سالوں میں اس کا خونی ردعمل سامنے آئے گا۔
جنرل مشرف اور بہت سے سازشی نظریہ ساز اداروں میں ہونے والی بنیادی تبدیلیوں اور ان کے دوررس نتائج سے بے بہرہ ہیں۔ ان کو علم نہیں ہے کہ جنرل مشرف کے خلاف چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی تحریک صرف عدالتی قوانین کے آزادانہ استعمال تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ درمیانے طبقے کے نئے سیاسی کردار کا جنم تھا۔ آزاد عدلیہ کی بحالی کے جھنڈے تلے درمیانے طبقے کے وہ لشکر جمع ہو رہے تھے جو پاکستان کے چالو نظام کو یکسر بدلنے کے خواہاں تھے۔ آزاد عدلیہ تب بھی ایک استعارہ تھا اور آج بھی ایک استعارہ ہے۔ اس سیاق و سباق میں دیکھیں تو عمران خان کا ابھار اسی امنگ کا تسلسل ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو تو نئی زندگی ہی آزاد عدلیہ کی تحریک کی حمایت کی وجہ سے ملی تھی۔ اب یہ ایک مختلف سوال ہے کہ نواز شریف یا عمران خان میں سے کون نئی عوامی امنگوں کا مرکز بنتا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے جو کچھ پانچ چھ سال پہلے ہونا شروع ہوا وہ جنوبی یا لاطینی امریکہ کے پورے براعظم میں سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ یاد رہے کہ پورے جنوبی امریکی براعظم میں، برازیل سے لے کر وینزویلا اور چلی تک فوجی آمریتیں قائم تھیں۔ کچھ پہلوؤں سے یہ آمریتیں پاکستان سے بھی بدتر تھیں کہ وہ سی آئی اے کے زیر نگرانی قاتل اسکواڈ کے ذریعے سے جمہوریت پسندوں کا قتل عام کرتی تھیں۔ اس میں لاکھوں ترقی پسند اور براعظم کے اصلی باسی (ریڈ انڈین) مارے گئے۔ سرد جنگ کے خاتمے پر پانسہ پلٹا اور یکے بعد دیگرے جنوبی امریکہ میں ترقی پسند جمہوری حکومتیں قائم ہونے لگیں۔ براعظم افریقہ بالخصوص جنوبی افریقہ میں بھی نسلی حکومت ختم ہوئی اور عوامی راج قائم ہوا۔
جنوبی امریکہ کے ممالک میں سے بھی چلی ایسا ملک ہے جس کی پاکستان کے ساتھ گہری مماثلت ہے۔ چلی کے ترقی پسند صدر سلویڈور الیاندے کو 1973ء کے فوجی کودیتا میں قتل کر دیا گیا جیسے ذوالفقار علی بھٹو کو ضیاء الحق نے پھانسی دی۔ فوجی کودیتا کا سربراہ جنرل پنوشے کئی دہائیوں تک صاحب اقتدار رہا اور جب جمہوری حکومت قائم ہوئی تو اس کے خلاف گوناگوں مقدمات درج ہونا شروع ہوئے جیسا کہ آج کل جنرل مشرف کے ساتھ ہو رہا ہے۔ چلی اور جنوبی امریکہ کے باقی ممالک میں تو ان فوجی افسروں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا جنہوں نے قاتل اسکواڈوں کے ذریعے یا خود جمہوری کارکنوں کا قتل کیا تھا۔
براعظم جنوبی امریکہ کا پاکستان سے کئی دہائیاں آگے ہونا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ علامتی سطح پر دنیا کے بڑے بڑے ادیب اس علاقے میں پیدا ہوئے۔ مشہور زمانہ نوبل انعام یافتہ شاعر پابلو نرودا چلی کے باشندے تھا۔ آج کی دنیا کی ناول نگاری کے رہبر و رہنما گارشیا ماکز بھی اسی براعظم کے ملک کولمبیا کے ہسپانوی ادیب ہیں پھر یہ بھی دیکھئے کہ اس براعظم نے چی گویرا اور فیڈل کاسترو جیسے تصوراتی گوریلا جنگجو پیدا کئے۔ اس لئے تیسری دنیا میں لاطینی امریکہ کی سیاسی سربراہی کافی حد تک فطری بھی تھی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایشیائی ممالک مع پاکستان لاطینی امریکہ کی طرح جمہوری نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تاریخ میں ایک غیر محسوس طرح کی ہم آہنگی ہوتی ہے جس میں بہت سے ملکوں کی جہت ایک ہی ہوتی ہے اگرچہ کوئی آگے ہوتا ہے اور کوئی پیچھے۔ یہ حادثہ نہیں ہے کہ لاطینی امریکہ اور پاکستان میں بیک وقت فوجی آمریتیں تھیں اور آج جمہوری دور کی آمد آمد ہے۔
پاکستان ابھی ان ابتدائی مراحل سے گزر رہا ہے جن سے لا طینی امریکہ اسّی اور نوّے کی دہائی میں آمریتوں کے خاتمے کے بعد گزرا۔ ابتدا میں لاطینی امریکہ میں بھی فوجی آمریتوں کے بعد قدامت پرست یا رجعت پسند سول حکومتیں قائم ہوئیں۔ پاکستان میں اس وقت بڑا مقابلہ دائیں بازو کی جماعتوں (مسلم لیگ و تحریک انصاف) میں ہے۔ نام نہادآزاد خیال پارٹیاں، پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی ترقی پسندی کی صف سے باہر ہو چکی ہیں۔ اس لئے بائیں بازو کو انتظار کرنا پڑے گا۔ پاکستان کا ہیوگو شاویزکون ہوگا کوئی نہیں جانتا۔
آخر میں ہم یہ ضرور بتانا چاہیں گے کہ لاطینی امریکہ میں انٹر امریکن کورٹ نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر ایک ملک کسی فریادی کی داد رسی نہیں کر سکتا تو وہ انٹر امریکن کورٹ جا سکتا ہے جس کو تمام لاطینی امریکی حکومتوں نے تسلیم کیا ہے۔ جنوبی ایشیاء میں بھی ایک ایسی ہی عدالت کی ضرورت ہے جو خطے کے مظلوموں کی داد رسی کر سکے۔ ایسا ہو گا تو ضرور لیکن کب اور کیسے؟ یہ کوئی نہیں بتا سکتا!
تازہ ترین