• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ) 

حقیقت تو یہ ہے کہ جنیوا معاہدہ کے نتیجے میں افغانستان میں قابض سوویت افواج کا انخلا ہونے پر بھی پاکستان میں ’’مجاہدین‘‘ کی قبائلی علاقوں میں بیس کو ’’دہشت گردوں‘‘ کی آماجگاہ کے طور پر پروپگیٹ کرنے اور اسلام آباد کو امکانی ایٹمی تجربے سے باز رکھنے کے لئے سی ٹی بی ٹی کرنے کا ہوم ورک بالکل تیار تھا، جس پر پوری شدت سے عمل ہوا۔ دیوارِ برلن کے انہدام پر جب بی بی سی کے نمائندے نے نیٹو کے سیکرٹری جنرل سے نیٹو کے مزید جواز یا ختم ہونے سے متعلق بڑا اہم سوال کیا تو جواب تھا کہ نہیں، اب ہم ایک اور نیا دشمن اُبھرتا دیکھ رہے ہیں، جو ’’اسلامی بنیاد پرستی‘‘ ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب فلسطین میں انتفادہ زور و شور سے آغاز کے بعد ایک نئے سیاسی عمل میں آ چکی تھی۔ ادھر پہلی مرتبہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی معاونت یا پالیسی سے ماورا خالصتاً مقامی تحریک حصولِ حقِ خودارادیت منظم ہوکر شروع ہو چکی تھی جبکہ بھارت میں آر ایس ایس کی فلاسفی پر قائم جماعت مختلف سیاسی روپ دھارنے کے بعد پارلیمانی پارٹی بن کر بتدریج مقبولیت کی طرف بڑھ رہی تھی، اب حکومت میں آ کر بھارت اور دنیا میں دہشت گردی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ اِس پس منظر میں مسئلہ فلسطین اور کشمیر اسرائیل اور بھارت کو خطرہ بنتے نظر آ رہے تھے۔ ہر دو عالمی مسائل پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے وزن بڑھنے لگا کیونکہ سوویت افواج کے انخلا کےفیصلے پر عمل، جہاد کے نتیجے میں روسی افواج کی کمر ٹوٹنے اور جنرل اسمبلی کے سات آٹھ اجلاسوں میں افغانستان سے اُن کے انخلا کے عالمی مطالبے سے ممکن ہوا۔ پھر سوویت فلاسفر قائد گوربا چوف کے تھیسز گلاسناسٹ اور (OPENNESS) ’’پریسٹریکا‘‘ (ضمیر کی آواز) کی مقبولیت سے آزادی کا جو کڑا تیار ہو رہا تھا، زور پکڑنے پر ہر اُس خطے اور ملک میں پہنچ گیا جہاں کے عوام عرصے سے حق خودارادیت یا اپنے جمہوری حق سے محرومی کی گھٹن شدت سے محسوس کر رہے تھے۔سوویت یونین کے انسانیت سوز اسٹیٹس کو کے ٹوٹنے کے پیدا ہوتے ماحول اور اثرات پر اگر ’’کیس ٹو کیس‘‘ ہماگیر تحقیقی کام ہو تو سب سے بڑی فائنڈنگ یہی ہوگی کہ جب بڑے بڑے تجزیوں، دعوئوں اور پیش گوئیوں کے برعکس سوویت یونین کے خاتمے اور دیوارِ برلن کے انہدام کا عالمی سیاست کو پلٹنے والا یہ ماحول بن رہ تھا تو اس میں دنیا کے تین اہم ممالک اور ایک خطے کے مستقبل قریب و بعید کے کچھ بڑے بڑے مفادات باہم گڈ مڈ ہو رہے تھے، جنہوں نے آنے والے برسوں میں واقعی پختہ شکل اختیار کرلی۔ یہ تھے امریکہ، یورپی یونین، بھارت اور اسرائیل۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر مزاحمت کے لئے غیر اعلانیہ اتحاد ہو گیا جو آج اپنی انتہا پر عملی شکل میں عیاں ہے۔ اگر متذکرہ چاروں عالمی سیاسی کھلاڑیوں کے اپنے اپنے، بڑے بڑے مفادات کے لئے یہ گٹھ جوڑ نہ ہوتا، دنیا آج نام نہاد ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ اورکلیش آف سویلائزیشنز کے نظریے کے برعکس ممکنہ حد تک پُرامن آزاد، خوشحال اور محفوظ و مستحکم ہوتی لیکن اِس صورت میں عالمی سیاست کے متذکرہ چاروں کھلاڑیوں کو یہ ہرگز برداشت نہیں تھا کہ مسئلہ کشمیر و فلسطین بھی روسی افواج کے انخلا کی طرح سے فقط اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں اور دیگر عالمی سفارتی حتیٰ کہ مشترکہ عسکری نوعیت (جو کہ افغانستان میں ہوئیں) کی کوششوں سے حل ہو، سو اُن کے لئے ناصرف یہ کہ ریکارڈڈ عالمی فیصلوں اور قراردادوں کو مکمل نظر اندازی سے ناقابلِ غور بنانے پر مکمل غیر علانیہ اور اندرون خانہ سفارتی اتفاق و اتحاد وجود میں آیا۔ اسی کے نتیجے میں امریکہ نے بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دیا، اسرائیل اور بھارت کے ناطے بڑھنے لگے، مغربی یورپی ممالک نے سکینڈے نیوین ممالک کی آڑ میں کپری کیچر ایشو گھڑ کر اس شیطانی شر سے اسلاموفوبیا پیدا کیا۔ جبکہ بنتے منظر میں مسلم دنیا کی حکومتیں تو نہیں، کچھ محدود سے گروپس ضرور ایسے پیدا ہوئے، جنہوں نے افغان جہاد سے چارج ہوکر اور امریکہ کی وقتی نظر اندازی ہی نہیں تعریف و توصیف میں طاقت پکڑی۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں دھماکہ، نیروبی اور دارالسلام کے امریکی سفارت خانوں پر دہشت گردانہ حملے، انڈونیشیا کے سیاحتی مقام بالی پر ایسا ہی حملہ اور سب سے بڑھ کر نائن الیون نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو عملی شکل دینے میں مسلسل حائل اور اسی پر سختی سے قائم رہنے کے انسانیت مخالف اتحاد کا ناروا ردِعمل تھا، جسےمسلم ممالک کی حکومتوں اور عوام دونوں نے ہی قبول نہیں کیا۔ جو شدت پسند، گوریلا یا دہشت پسند گروپس وجود میں آئے انہیں مینج کرکے دنیا کو امن کی راہ پر ڈالنا عالمی کوششوں میں آسان تر تھا لیکن ’’اتحادی عزائم‘‘ کچھ اور تھے۔ بطور ریاست سب سے بڑا دہشت گرد بھارت بنا بلکہ یہ امریکہ اور یورپی یونین کی علانیہ پالیسیوں کے برعکس بہت کھل کھلا کر اس طرف مائل ہو گیا۔ بظاہر تو اس کا سارا زور پاکستان پر رہا لیکن اب جو فارن پالیسی میگزین نے بھارت کے ریاستی دہشت گرد ہونے کے تہلکہ خیز انکشافات کئے ہیں، اُن کی تصدیق امریکی ڈیپارٹمنٹ آف ٹریژریز کے فنانشل کرائمز انویسٹی گیشن نیٹ ورک کی اِس تفتیشی رپورٹ سے ہو گئی جس کے مطابق بھارت کے 44ریاستی اور نجی بینک منی لانڈرنگ، دہشت گردی اور منشیات کے دھندوں کی ٹرانزیشن میں ملوث پائے گئے۔ پھر یہ ہی نہیں عملاً تو بھارت، اسرائیل سے بھی بڑا عالمی ریاستی دہشت گرد ثابت ہوا جیسا کہ امریکی معتبر میگزین ’’فارن پالیسی‘‘ نے بھارت کو سویڈن، انڈونیشیا، شام اور سری لنکا میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت ملنے کا انکشاف کیا ہے جبکہ پاکستان نے بھارتی جاسوس کمانڈر کو بلوچستان میں قائم دہشت گردی کی کمانڈ کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا اور دنیا کے سامنے سارے ثبوت لایا۔ اب بھارت کو عالمی کٹہرے میں لانے کی مکمل راہ ہموار ہو گئی ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان کے تمام متعلقہ عالمی اداروں جن کو کالم کے آغاز پر مخاطب کیا گیا، سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ بھارت کو متعلقہ عالمی اداروں میں بلیک لسٹ کرانے اور اُس پر پابندی لگانے کے لئے وزارتِ خارجہ میں ہنگامی بنیاد پر ایک الگ مشترکہ سیٹ اپ قائم کرکے دوست ممالک خصوصاً چین، ایران، روس، ترکی، انڈونیشیا، سویڈن، سری لنکا اور دوسرے متاثرہ ممالک سے رابطہ کرکے بھارت میں اُس پر بنتی عالمی پابندیاں لگانے کے لئے ہماگیر سفارتی منصوبہ بندی کریں۔ یہ بڑا سفارتی موقع کسی طور پر رائیگاں نہ جائے۔ یہ مقبوضہ کشمیر کا محاصرہ ختم کرانے کا بھی بڑا تقاضا ہے۔ وما علینا الالبلاغ۔

تازہ ترین