• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرائیکی وسیب کے کسی گھر میں جس دن بیٹی کی ولادت ہوتی ہے،اُسی روز سے والدین اس کی رخصتی کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں کہ بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں۔ ماں کے لبوں پرہر وقت اس کے اچھے نصیب کی دُعائیں رہتی ہیں۔ سرائیکی خطّہ عرصۂ دراز ہی سے پس ماندگی اور غربت کا شکار ہے، اسی لیے دیہی خواتین مال مویشی پال کر آہستہ آہستہ ڈاج (جہیز) اکٹھا کرتی ہیں کہ ایک ہی وقت میں شادی کا پورا انتظام کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

یہاں بس جہیز ہی نہیں جمع کیا جاتا، بلکہ بچپن ہی سے تربیت پر بھی خصوصی توجّہ دی جاتی ہے۔ لڑکیوں کو ہنر مند بنایا جاتا ہے، امورِ خانہ داری سکھائی جاتی ہے، تاکہ آگے جاکروہ بخوبی اپنا گھر بار سنبھال سکے ۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وقت پَر لگا کر اُڑ جاتا ہےاور با لآخر وہ وقت آہی جاتا ہے، جس کے خواب بیٹی کے والدین اس کے جنم دن سے سجارہے ہوتے ہیں، یعنی شادی کا دن۔

شادی کی رسومات کئی مراحل پر مشتمل ہوتی اور کئی روز تک جاری رہتی ہیں۔ تمام خاندان والے مِل بانٹ کر اپنی لاڈلی کی رخصتی کی تیاری کرتے ہیں اور اسی مِل جُل کر کام کرنے کی وجہ سے تمام معاملات انتہائی آسانی سے طے ہو جاتے ہیں۔جب رشتہ پکّا ہو تا ہے، تو ایک رات لڑکے والے اپنے چند قریبی رشتے داروں کے ساتھ شادی کی تاریخ طے کرنے لڑکی والوں کے گھر جاتے ہیں ۔ اس رسم کو ’’گنڈھیں باندھنا‘‘ کہا جاتا ہے۔ 

اس موقعےپر گُڑ، بتاشے(تپاسے) یا لڈّو بانٹے جاتے ہیں۔ تاریخ طے ہوتے ہی دونوں گھرانوں میںتیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ مکانوں کو چِکنی مٹّی سے لیپ کیا جاتا یا رنگ وروغن کروایا جاتا ہے۔یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ سرائیکی و سیب میں زیادہ تر شادیاں چاند کے حساب سے رکھی جاتی ہیں، اس حوالے سےچودھویں شب کو سب سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ گرمیوں میں مہمانوں کے قیام کا مسئلہ ہوتا ہے، اس لیے کوشش کی جاتی ہے کہ شادی ٹھنڈے موسم یعنی اکتوبر، نومبر یا فروری، مارچ میں رکھی جائے۔

شادی سے چند دن قبل لڑکے کے گھر والے، لڑکی کے گھر والوں کوبازار لے کر جاتے ہیں ، تاکہ دُلہن کے لیے خریداری کروا سکیں۔ اس سامان کو’’وری سوئی‘‘ کہتے ہیں ، جس کا تمام خرچہ لڑکے والے اُٹھاتے ہیں۔شادی سے دو روز قبل لڑکی کی ’’ مینڈھی‘‘(منہدی ) ہوتی ہے، جو خالصتاً خواتین کا فنکشن ہوتاہے۔اس موقعے پر دولھےکے خاندان کی خواتین ڈھولک بجاتی ، گانے گاتی لڑکی والوں کے گھر آتی ہیں۔ پھر ’’جھمر‘‘ ( جھومر )ڈالا جاتا اور شادیانے بجائے جاتے ہیں۔

بعد ازاں، ایک بزرگ خاتون ،دُلہن کے بالوں میں گُندھی مینڈھی کھولتی ہیں۔ واضح رہے کہ اس علاقے کی لڑکیاں شادی سے قبل اپنے بالوں کو رسّی کی طرح بل دے کر باندھے رکھتی ہیںاور مینڈھی کے دن سے شادی تک دلہن بلاضرورت گھر سے تو کیا، کمرے سے بھی باہر نہیں نکلتی،اسے ’’گھنڈ ‘‘(پردہ)کہا جاتا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ شادی کی دعوت دینا علاقے کے نائی کی ذمّے داری ہوتی ہےکہ فلاں دن مینڈھی ہے، فلاں دن رخصتی اور کانڈھا (ولیمہ) ہے ۔شادی کے دنوں میں پڑوسی بھی بھر پور تعاون کرتے ہیں۔ مہمانوں کے قیام کے لیے چارپائیاں، بستر،تکیے اور دیگر سامان آس پڑوس ہی سے آتا ہے، تاکہ مہمانوں کی تواضع میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔

شادی سے ایک رات قبل گھر میں ’’جاگا‘‘ منعقد کیا جاتا ہے، جس میں خواتین گھر کے اندر اور مرد چوپال میں لڈّی، جھومر اور بھنگڑے ڈالتے ہیں۔شادی کے دن کا کھانا لڑکی والوں کی طرف سے ہوتاہے۔ جس میںعام طور پر سالن روٹی یا گوشت چاول پکائے جاتے ہیں۔ جانور ذبح کرنا، دیگیں پکانا اور تقسیم کرنا سب کام مل جل کر کیا جاتا ہے۔ جوں جوں مہمان آتے جاتے ہیں ،انہیںانتہائی عزّت و احترام سے بٹھا کر کھانا کھلایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک دولھا پھٹے پرانے کپڑوں میں دُلہن کے گھر جا تا تھا، پھر وہیں نئے کپڑے پہنتا، مگر اب یہ رواج بدل چُکا ہے۔

جب دولھا تیار ہوتا ہے تو پوری برادری اس کے سرپر خوش بودار تیل لگاتی ہے، نائی نئے کپڑے پہناتا ہے۔ علاوہ ازیں، اسے چاقو، چھری، کلہاڑی یا لوہے کی کوئی چیز ضرور پکڑائی جاتی ہے۔ اس کے بعد محلّے کی کسی مسجد کے سامنے دولھے کے دادا، چچا یا قریبی بزرگ اسے ’’گانا‘‘ پہناتے ہیں، جو لال رنگ کے دھاگوں سے بنا ہوتا ہے۔ اس موقعے پرمیراثی اور نائی کو ہر شخص ویل (پیسے) دیتا ہے اور باقاعدہ باآواز ِبلند اعلان کیا جاتا ہے کہ ’’دولھے کے نام پرفلاں رشتے دار نے اتنے روپے ویل دی۔‘‘دولھا سفید کپڑوں میں ملبوس ہوتا ہے، ساتھ میں پگڑی اور ایک لنگی بھی ضرور ہوتی ہے، جب کہ نوٹوں کا ہار ڈالے بغیر اس کی تیاری ادھوری سمجھی جاتی ہے اور اس کا کوئی دوست پورے فنکشن میں اس کے ساتھ رہتا ہے، جسے ’’سر بالا‘‘ کہتے ہیں۔

پہلے زمانے میں بارات اونٹوں پر جاتی تھی۔ اونٹوں کو سجا کران پر کچاوے رکھ کر خواتین کو سوار کیا جاتا تھا۔سب سے آگے والے اونٹ کو مورہی کہا جاتا تھا، جس پر رخصتی کے وقت دُلہن بیٹھتی تھی، جب کہ تمام مرد پیدل چلتے ۔ دولھا بھی اپنی دلہن کے کچاوے کو سہارا دیئے سارا راستہ پیدل چلتا تھا۔ اصل بارات یعنی ’’جنج ‘‘یہی ہوتی تھی، لیکن اب اونٹوں پر بارات لے جانے کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ 

اس لیے اب باراتیں بیل گاڑیوں، ٹریکٹر ٹرالیوں، بسوں یا گاڑیوں میں جاتی ہیں۔ لیکن بارات کا اصل حُسن پیدل جانےہی میں ہوتا تھا۔ سب سے آگے ڈھول ،نقّارے اور شہنائی والے ہوتے ، پھر دولھا اوراس کے دوست احباب ، جو سارا راستہ بھنگڑا ڈالتے جاتے ۔آج بھی دُلہن کے گھر سے ذرا فاصلے پر بارات کچھ دیر کے لیے رُک جاتی ہے ، تاکہ لڑکی کے گھر میں موجود خواتین اور بچّے دروازے اور دیواروں سے بارات دیکھ سکیں۔ خواتین کوگھر میں اور مَرد وں کو شامیانوں یا درختوں کے نیچے رکھی چارپائیوں، کرسیوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ 

دُلہن کی ماں اور دیگر قریبی رشتے دار خواتین دولھا والوں کی خواتین کو دروازے ہی پر روک کر دروازہ بند کرلیتی ہیں ، جب تک دولھے کی ماں اندر پھیلائے کپڑے، ’’ جھل ‘‘ میں کچھ رقم نہ ڈال دے، تب تک دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ بعض دفعہ مذاق میں اندر داخل ہونے والی خواتین کو درختوں کی ٹہنیاں بھی ماری جاتی ہیں۔ پھر نکاح کے بعد نائی سب لوگوں سے ’’نیندر‘‘ (سلامی) وصول کرتااور بلند آواز میں کہتا ہے ’’فلاں شخص نے، جو فلاں قوم، جگہ کا رہنے والا ہے ، اتنے سو نیندر اور اتنے روپے ویل یا سلامی دی ۔‘‘ دوسری جانب، ایک آدمی یہ رقم کاپی میں درج کرتا جاتا ہے۔بعد ازاں، دولھےکو دُلہن کے پاس بٹھایا جاتا ہے، جہاں دودھ پلائی ، جوتا چھپائی اور پلّو بندھائی وغیرہ کی رسمیں ہوتی ہیں۔ 

دولھے کی بہنیں، عموماً چھوٹی بہنیں اس کی لنگی یا قمیص کا ایک کونا مضبوطی سے باندھ دیتی ہیں، اسے ’’پلّو بندھائی ‘‘کہتے ہیں، جسے کھولنے کے عوض نیگ ملتا ہے۔اس کے بعد دُلہن کے برابر میں مٹّی کا ایک مضبوط برتن رکھا جاتا ہے، جسے دولھا کو پہلی ہی ٹھوکر میں ایڑی سے توڑنا ہوتا ہے،ناکامی کی صُورت میں تمام سالیاں اس کا مذاق اُڑاتی ہیں۔ انہی تمام رسومات کے دوران وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا اور دیکھتے ہی دیکھتے رخصتی کا وقت آ جاتا ہے۔ پھر والدین اپنی لاڈلی کو آنسوؤں اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتے ہیں۔

سُسرال پہنچنے سے قبل دُلہن کو کسی دربار میں بھی لے جایا جاتا ہے۔گھر پہنچنے پر دولھا،دُلہن کاپُر جوش استقبال ہوتا ہے۔ بعد ازاں، کمرے میں جانے سے قبل نئی نویلی دُلہن دروازہ پکڑ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس رسم کو ’’موہاڑی پکڑنا‘‘ کہتے ہیں۔ 

اس رسم میں سُسر یا خاوند گائے ، بھینس یا نقدی دلہن کے نام کرتے ہیں ،تو وہ اندر داخل ہوتی ہے۔ شادی کے ساتویں دن دُلہن کی ماں ، اپنی بیٹی داماد کو گھر لے کر آتی ہے۔ اس رسم کو ’’ستو واڑہ‘‘ کہتے ہیں، پھر دوسرے دن نو بیاہتا جوڑا اپنے گھر واپس لوٹ جاتا ہے ، اس رسم کا مقصد یہ ہے کہ آنے جانے کا سلسلہ یونہی چلتا رہے۔

تازہ ترین