• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اشیائے صرف کی بےمحابا گرانی، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بےہنگم محاذ آرائی سے پیدا ہونیوالی سیاسی بےچینی اور کورونا وائرس کے تباہ کن حملوں کے ہیجان انگیز ماحول میں بےحال ملکی معیشت سے پریشان عوام کیلئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے یہ حوصلہ افزاء اعلامیہ جاری کیا ہے کہ موجودہ مالی سال کی تیسری سہ ماہی میں روزگار کے لئے بیرون ملک جانیوالے پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلارتِ زر 7.147ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی ہیں جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 31.1فیصد زیادہ ہیں۔ یہ کامیابی زیادہ ترمشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکہ میں کورونا وائرس کے منفی اثرات سے ماند پڑ جانیوالی تجارتی سرگرمیاں بتدریج بحالی کی جانب گامزن ہونے کے نتیجے میں ممکن ہوئی ہے تاہم اِس میں ترسیلاتِ زر بڑھانے کیلئے حکومت پاکستان کے مؤثر اور غیرروایتی اقدامات کو بھی بڑا دخل ہے۔ گزشتہ سال اوورسیز پاکستانیوں نے مجموعی طور پر 5.453ارب ڈالر پاکستان بھیجے تھے۔ گویا اس سال اتنی ہی مدت میں اُنہوں نے 2ارب ڈالر سے زائد اضافی رقم بھیجی ہے جو ملکی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد دے گی۔ اسی بناء پر وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹر پیغام میں بجا طور پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے باوجود یہ ہماری معیشت کیلئے بہت بڑی خوشخبری ہے۔ کرنسی لین دین کرنیوالوں اور اوپن مارکیٹ کے ڈیلروں کا کہنا ہے کہ ترسیلاتِ زر میں اضافے کی ایک بڑی وجہ کورونا کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے بیرون ملک پاکستانیوں کا اپنے خاندانوں کو معمول سے زیادہ رقم بھیجنا ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پہلے باہر سے آنیوالے پاکستانی اپنے ساتھ نقد رقوم لایاکرتے تھے۔ کورونا کے بعد اُن کا پاکستان آنا پابندیوں کی وجہ سے محدود ہوگیا جس پر سٹیٹ بینک اور دوسرے بینکوں نے فارن ایکسچینج کی ترسیل میں ضروری سہولتیں مہیا کیں۔ اس کے نتیجے میں رقوم کی ترسیل بینکوں کے ذریعے زیادہ آسان ہوگئی اور ترسیلات میں اضافہ ہو گیا۔ سب سے زیادہ رقم سعودی عرب سے آئی جس کاحجم جولائی سے ستمبر تک کی سہ ماہی میں 2.08ارب ڈالر ہے۔ پچھلے مالی سال کی اسی مدت میں یہ رقم 1.556ارب ڈالر تھی گویا اس مدت میں اس سال وہاں سےآنیوالی رقم میں 33.6فیصد اضافہ ہوا۔ ترسیلاتِ زر میں سب سے زیادہ فیصد اضافہ برطانیہ سے آنیوالی رقوم میں ہوا جو 71.5فیصد ہے۔ اس کے بعد امریکہ، خلیجی ممالک اور یورپی یونین کا نمبر آتا ہے۔ اوورسیز پاکستانی اپنے وطن سے دور غیر ممالک میں محنت مزدوری یا کاروبار کررہے ہیں اور پاکستان میں موجود اپنے خاندانوں کی کفالت کرتے ہیں۔ بہت سوں نے یہاں اربوں روپے کی سرمایہ کاری بھی کررکھی ہے۔ یوں وہ اپنے ملک کی غیرمعمولی خدمت کررہے ہیں۔ ایسے وقت میں بالخصوص ان کا بھیجا ہوا زرمبادلہ وطن عزیز کیلئے بہت بڑا سرمایہ ہے جب ملک قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق ملکی خزانے پر واجب الادا قرضہ 35ہزار 659ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ پچھلے دو سال میں وفاقی حکومت کے مجموعی قرضوں میں دس ہزار 928ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ پاور ڈویژن میں گردشی قرضوں کا حجم بھی 2ہزار ایک سو ارب روپے سے زیادہ ہو گیا ہے۔ ایسی صورتحال میں اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر ملکی معیشت کیلئے بہت بڑا سہارا ہیں۔ حکومت کو اندرون ملک روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے علاوہ بیرونی ملکوں میں بھی روزگار کے امکانات پر توجہ دینی چاہئے اور جو لوگ پہلے وہاں موجود ہیں‘ انہیں زیادہ سے زیادہ سہولتیں، مراعات اور دوسری ترغیبات دینی چاہئیں تاکہ وہ ملک کی خدمت کرتے رہیں۔

تازہ ترین