• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر کوئی ہر جگہ ایک ہی سوال پوچھ رہا ہے کہ 10 دن بعد ہونے والے عام انتخابات میں کون سی سیاسی جماعت کتنی سیٹیں حاصل کرے گی۔ تخمینے اور اندازے اتنے ہی ہیں جتنے اس سوال کا جواب دینے والے۔ اس بحث مباحثے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کارکردگی کیسی رہے گی اور یہ دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کی سیٹوں کو کتنا متاثر کرے گی۔ یہ بات طے ہے کہ جتنے زیادہ ووٹ پی ٹی آئی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی اتنی ہی سیٹیں (ن) لیگ جو آئندہ حکومت بنانے کیلئے پر تول رہی ہے کی کم ہو جائیں گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جن حلقوں میں ان دو جماعتوں کے امیدواروں کے درمیان مقابلہ سخت ہوگا وہاں پیپلزپارٹی جو اپنی تاریخ کی سب سے نچلی سطح کو چھو رہی ہے سیٹیں نکال لے ۔
پیپلزپارٹی جس نے اپنی روایتی انتخابی مہم جس کا خاصا بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد ہوتا تھا، سیکورٹی خطرات کی وجہ سے یکسر ترک کر دی ہے اور اس تاک میں ہے کہ عمران خان کی ٹیم بہتر سے بہتر کارکردگی دکھا کر نون لیگ کی سیٹیں کم کرے اور اس کا فائدہ اس کو پہنچے مگر یہ اس کی خام خیالی ہے کیونکہ اگر پی ٹی آئی نے نون لیگ کو نقصان پہنچایا ہے تو پیپلزپارٹی بھی اس سے محفوظ نہیں۔ جب سونامی کا آغاز ہوا تھا تو پیپلزپارٹی بغلیں بجا رہی تھی کہ (ن) لیگ تو اس کا شکار ہوگئی مگر آہستہ آہستہ اسے احساس ہو گیا کہ اس کا بھی خاصا نقصان ہو رہا ہے لہٰذا پھر اس نے بھی اپنی توپوں کا رخ پی ٹی آئی کی طرف کر دیا۔ تاہم جب سے انتخابی مہم شروع ہوئی ہے عمران خان کا اصل ٹارگٹ شریف برادران ہیں۔ کبھی کبھار وہ صدر آصف علی زرداری کو بھی تنقید کا نشانہ بنا دیتے ہیں مگر یہ صرف اس لئے کہ (ن ) لیگ کے اس اعتراض کا جواب دیا جاسکے کہ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے درمیان انڈر اسٹینڈنگ ہوگئی ہے۔
مختلف شواہد کے پیش نظر یہ بات طے لگتی ہے کہ پی ٹی آئی باقی صوبوں کی نسبت پنجاب میں اچھی کارکردگی دکھائے گی اس کے بعد خیبر پختونخوا کا نمبر آتا ہے، سندھ اور بلوچستان میں یہ شاید ہی کچھ حاصل کرسکے۔ سندھ میں تو یہ ”گمنام“ امیدوار بھی نہیں ڈھونڈ سکی۔ شریف برادران جو پنجاب کو اپنی اصل طاقت کا مرکز سمجھتے ہیں وہاں پی ٹی آئی انہیں نقصان پہنچا رہی ہے۔ جہاں تک (ن) لیگ کا تعلق ہے یہ بھی پنجاب میں سب سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اس کے بعد خیبر پختونخوا اور پھر بلوچستان اور سندھ آئیں گے۔ تاہم خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ان دونوں جماعتوں سے بھی بہتر اسکور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام کا ہوگا۔ جیسے جیسے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی انتخابی مہم دہشت گردی کی وجہ سے محدود ہوئی ہے جے یو آئی کی حالت بہتر ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اے این پی کی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی بھی کافی مایوس کن رہی ہے۔ اسی وجہ سے یہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ کچھ زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ تاہم یہ جماعت اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ دہشت گردوں نے اس کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اس کی قربانیاں بہت زیادہ اور بے مثال ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ووٹر ان پہلوؤں کو بھی سامنے رکھیں گے یا نہیں۔ بلاشبہ تمام سیاسی جماعتوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اے این پی کا کردار فرنٹ لائن کا رہا ہے۔
لگ یوں رہا ہے کہ (ن ) لیگ اور جے یو آئی 2008ء کے مقابلے میں زیادہ سیٹیں لیں گی۔ پی ٹی آئی اپنی سیاسی تاریخ کی سب سے زیادہ سیٹیں لے گی یہ کتنی ہوں گی یہ کہنا مشکل ہے اور نامناسب بھی۔ بہرحال اس کی تاریخ بتاتی ہے کہ صرف عمران خان ہی ایک بار اپنی سیٹ میانوالی سے ہی حاصل کرسکے تھے۔ اس وقت کی پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کے ووٹ جمع کئے جائیں تو کچھ زیادہ نہیں بنتے مگر اس بار پوزیشن بہت مختلف ہے اور اس کی کارکردگی یقیناً بہت بہتر ہوگی۔ شاید اتنی نہیں جتنی سوشل میڈیا بتا رہا ہے یا عمران خان کے جلسوں سے ظاہر ہو رہا ہے۔ حکومت میں پانچ سالہ کارکردگی کی وجہ سے پیپلزپارٹی اور (ق) لیگ 2008ء کے مقابلے میں کافی کم سیٹیں حاصل کرسکیں گی مگر ان لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے جو پیپلزپارٹی کو مکمل طور پر write off کرتے ہیں۔ تاہم ہمارا اندازہ ہے کہ اب بھی سیٹوں کی تعداد کے لحاظ سے سندھ میں یہ سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی نہ صرف یہ بلکہ پنجاب میں بھی یہ ٹھیک ٹھاک تعداد میں سیٹیں حاصل کرلے گی۔کچھ نہ کچھ حصہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے بھی لے لے گی۔ مگر قاف لیگ کا مستقبل خاصا مخدوش لگ رہا ہے۔ امکان یہ ہے کہ یہ پہلے کے مقابلے میں کافی کم سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے گی۔ تاہم اس کی کارکردگی ایک لحاظ سے کافی اچھی رہے گی کہ یہ اپنی سب سے بڑی مخالف جماعت (ن) لیگ کو نقصان اپنی حاصل ہونے والی سیٹوں سے زیادہ پہنچا دے گی لہٰذا اسے راحت محسوس ہوگی کہ اگر وہ کچھ زیادہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی تو اس نے (ن) لیگ کو تو کافی نقصان پہنچا دیا ہے۔ اس طرح صدر زرداری کی اسکیم کامیاب ہو جائے گی کہ (ق) لیگ کو ساتھ ملانے کا اصل مقصد شریف برادران کو سبق سکھانا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ بھی شاید پہلے جتنی سیٹیں حاصل نہ کرسکے اس کا واویلا بھی یہی ظاہر کر رہا ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی اپنے اتحادیوں یعنی ایم کیو ایم، اے این پی اور قاف لیگ سے مل کر حکومت بنائے گی صرف ایک مذاق لگتا ہے ۔ اے این پی اور (ق) لیگ کا کچھ اعتبار نہیں کہ وہ عام انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کے ساتھ چلنے پر رضا مند ہوں گے یا نہیں۔ البتہ( ق) لیگ یا یہ کہیں کہ گجرات کے چوہدریوں کا سیاسی جینا مرنا صرف پیپلزپارٹی کے ساتھ نظر آرہا ہے۔ اگر یہ تمام سیاسی جماعتیں اتنی سیٹیں حاصل کر لیں جس کا امکان کم ہے کہ وہ کسی ایک دوسری پارٹی سے زیادہ ہوں تو پھر بھی سب سے زیادہ سیٹیں لینے والی جماعت کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔
1988ء کے انتخابات سے لے کر 2008ء تک وہی جماعت برسراقتدار آئی جس کی سیٹیں سب سے زیادہ تھیں چاہے وہ سادہ اکثریت حاصل کرسکی تھی یا نہیں لہٰذا چوں چوں کا مربع اکٹھا کر کے حکومت بنانے کا مقصد صرف اور صرف جمہوریت کے ساتھ سنگین کھیل ہوگا اور عدم استحکام پیدا ہوگا جس کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ پیپلزپارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ملک کو اس گہرائی میں لے گئی ہے جہاں سے نکالنا کافی مشکل ہے گو ناممکن نہیں۔ رائے دہندگان کو چاہئے کہ وہ 11 مئی کو ان تمام جماعتوں کو سخت سے سخت سزا دیں تاکہ آئندہ جو بھی پارٹی حکومت میں آئے وہ کچھ کارکردگی دکھائے۔ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کو نئے وعدے کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے خصوصاً یہ کہ وہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دیں گے۔
تازہ ترین