• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
 ہم عام طور پر نو آبادیاتی دور کا ذکر کرتے ہیں جس میں ہندوستان برٹش راج کی ایک نو آبادیاتی تھی۔ مٹھی بھر انگریزوں نے اتنے بڑے ہندوستان پر نہ صرف قبضہ کیا،اپنا راج قائم کیا بلکہ کروڑوں نفوس پر ایسے اثرات چھوڑے کہ ہم اس انگریزوں کے دیئے گئے اپاہج پن سے ابھی تک نہیں نکل سکے۔ ہم ان کے بنائے ہوئے اداروں کو نہیں بدل سکے۔ ان کے بنائے ہوئے نوآبادیاتی تربیتی اطوار کو نہیں بدل سکے۔ انہوں نے کس طرح شعوری پلاننگ کے تحت ہماری زبانون کو ختم کیا۔ ہمارے کلچر اور ثقافتی ورثے کی کمر توڑی۔ تعلیمی نظام کو ایسا تہس نہس کیا کہ ہم آج تک اپنے لئے انسان دوست تعلیمی نظام مرتب نہیں کرسکے۔ یہ سب کیسے ہوا اس سارے ظلم کی منصوبہ بندی کس نے کی کب کی اور کیسے سب ہوگیا۔ اس کے لئے ہمیں 1835 میں لارڈ مکالے کے کام کو دیکھنا پڑے گا۔ وہ ایک بڑا مضمون نگار اور برٹش مورخ تھا۔ اس نے 1835میں ہی برٹش پارلیمنٹ کو خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ میں نے ہندوستان کے طول و عرض کا سفر کیا ہے۔ میں نے کہیں بھی ایک بھکاری نہیں دیکھا۔ میں نے اس ملک میں اتنی دولت دیکھی ہے۔ اتنی اعلیٰ اخلاقی اقدار دیکھی ہیں۔ جس اعلیٰ معیار کے دیکھے ہیں جس سے میرا یہ خیال بنا ہے کہ ہم کبھی اس ملک کو فتح نہیں کرسکیں گے۔ تاوقتیکہ ہم اس قوم کی کمر توڑ کے رکھ دیں۔ اس قوم کی قوت اور طاقت اسکے روحانی اور کلچرل ورثے میں ہے۔ اس لئے میری تجویز ہے کہ ہم اس ملک کے قدیمی تعلیمی نظام کو تبدیل کردیں۔ اس کا کلچرل بدل دیں۔ حتیٰ کہ ہندوستان والے یہ مان لیں کہ جو کچھ بدیسی یا ولایتی ہے۔ وہی اصلی اور قیمتی ہے اور ان کے اپنے دیسی سے بہتر ہے۔ اس سے ان کی خودارادی ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور ان کا اپنا دیسی کلچر بھی برباد ہوجائے گا۔ پھر وہ ایسی قوم بن جائیں گے جیسی ہم چاہتے ہیں۔ ‘‘ہم ایسی قوم ہیں صحیح معنوں میں ہماری محکوم قوم ہوگی۔ لارڈ مکالے کے پیش کئے گئے اس منصوبے سے ہندوستان کو صحیح معنوں میں برباد کرنے کی کتنی وزن دار سوچ نظر آرہی ہے۔ لارڈ مکالے نے ہی ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی کو ختم کرکے انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر لاگو کرنے کی تجویز دی تھی۔ بچوں کو ہر مضمون انگریزی میں پڑھانے کی تجویز دی تھی۔ اس کی تمام تجاویز کو نہ صرف برٹش پارلیمنٹ نے منظور کر ڈالا۔اس سے ہندوستان میں پرانا انڈین تعلیمی نظام ختم ہونا شروع ہوگیا۔ مکالے نے ہی بطور مورخ دنیا کو مہذب اقوام اور بربریت پسند اقوام میں تبدیل کردیا ۔ یہ بات بالکل آج کے امریکہ کی تہذیبوں کی جنگ کے نظریے سے مطابقت رکھتی ہے۔ مکالے نے برطانیہ کی اعلیٰ تہذیب کا نمائندہ قرار دیا۔ پھر اس نے اپنی تحریر Minutes on Indian Education میں لکھا کہ وہ سمجھتا ہے کہ ہندوستان میں جتنی بھی تاریخ سنسکرت میں لکھی گئی ہے وہ ساری ناقص اور غیر مستند ہے جب کہ تاریخ برٹش کلچر اور اس کی روایات بہت سچی اور کھری ہیں۔ اس نے اس وقت گورنر جنرل کو مجبور کیا کہ وہ اس کے ان نظریات کو نہ صرف اپنا بیانیہ بنائے بلکہ لاگو کرے۔ آج یہ سب لکھنے اور آپ کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ کس طرح ہندوستان میں ہماری جڑیں کھوکھلی کیں اور کس طرح ہم سے ہماری شناخت اور خود اعتمادی چھینی۔ ہم نہ صرف اپنی پہنچان بھول گئے بلکہ بدیسی کلچر رہن سہن اور ان استعمال کی اشیا سب کو اعلیٰ انسانیت کی معراج گرداننے لگے۔ یہی وہ سو سال ہیں جس میں انگریز نے دنیا بھر میں اپنی نوآبادیوں کو ذہنی طور پر اپنا غلام بنایااور ہندوستان سے لارڈ مکالے کے سامراجی تسلط کے نظریات اور تھیوری کو پوری دنیا میں موجود اپنی نو آبادیوں میں لاگو کیا۔ انہیں ہر جگہ سے مطلوبہ سے بڑھ کے نتائج حاصل ہوئے۔ مکالے اکثر کہتا تھا کہ ہندوستان میں کوئی ایسا باعلم شخص نہیں ہے جو پورے ہندوستان کے عربی اور سنسکرت میں موجود لٹریچر کو کسی یورپی لائبریری کی ایک شیلف سے بھی گھٹیا نہ مانتا ہو۔ اسی طرح انہوں نے پورے ہندوستان تو ذہنی طور پر اپنا محکوم کرلیا۔ اسی لئے انگریز کو ہندوستان میں کبھی بھی اپنی برٹش آرمی کی بہت بڑی تعداد کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ بلکہ انگریز نے ہندوستان کے اوپر ہندوستانیوں کے ذریعے ہی حکمرانی کی۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ ہم نے پورے ہندوستان کو تعلیم یافتہ نہیں کرنا بلکہ مخصوص گروہ کو پڑھا لکھا بنانا ہے جو ہمارے اور کروڑوں ہندوستانیوں کے درمیان مترجم کا کردار ادا کریں، ہمیں ہندوستان میں ایک ایسی کلاس بھی تیار کرنی ہے جو خدوخال اور رنگت میں تو انڈین ہو لیکن اخلاقیات ، پسند نا پسند اور اقدار میں انگریز ہو۔ 1857کے غدر انڈیا میں لارڈ مکالے کی انڈین پینل کوڈ کی تجویز بھی مان لی گئی۔ اس کی بنائی پینل کوڈ برطانیہ نے اپنی بیشتر نو آبادیوں میں لاگو کی۔ جن ممالک آج بھی وہی مکالے کے بنائے قوانین لاگو ہیں ان میں سنگاپور،پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نائیجریا اور انڈیا موجود ہیں۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں خود کو سراٹھاکر جینے والی قوم بننے کیلئے نوآبادیاتی قوانین ، کلچر اور تاریخ سے جان چھڑانا ہوگی۔ یہ مقابلےکے امتحان، انگریزی جاننے والے کو اعلیٰ سمجھنا ،انگریز کی بنائی بیوروکریسی، عدالتیں ،پٹوارخانے وغیرہ سب ختم کرکے اپنے مطابق ازسر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے ورنہ نہ تو ہماری سیاست ٹھیک ہوسکتی ہے نہ معیشت نہ ہی ہماری اجتماعی سوچ، یہی تو غلامانہ ذہنیت ہماری دشمن ہے۔ 
تازہ ترین