پاکستان میں اس وقت احتجاجی جلسے عروج پر ہیں۔مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔اگر معاشی اعدادوشمار پر نظر ڈالی جائے تو ناکامی اور مایوسی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ مہنگائی نو فیصد کی سطح عبور کر چکی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق آئندہ چند ماہ میں یہ گیارہ فیصدتک بڑھ سکتی ہے۔ قرض اور جی ڈی پی تناسب ستاسی اشاریہ دو فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ Fiscal Responsibility And Debt Limitation Act کے مطابق یہ شرح ساٹھ فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ن لیگ کی حکومت میں ملکی قرض چوبیس اشاریہ نو ٹریلین روپے تھا جو آئی ایم ایف کے مطابق تحریک انصاف کے پانچ سالہ دور حکومت کے خاتمے پر تقریباً پینتالیس ٹریلین روپے تک پہنچ سکتا ہے۔بے روزگاری کم کرنے کے لیے پاکستان کو سالانہ تقریباً سات فیصد گروتھ کی ضرورت ہے جبکہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے مطابق پاکستان تین اشاریہ آٹھ فیصد سے زیادہ گروتھ نہیں کر سکتا۔ عوامی رائے کے مطابق احتجاج اور جلسوں سے حکومت کو اپنی پالیسیاں درست کرنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انھیں کس طرح زیادہ موثر بنایا جائے؟ احتجاجی تحریک کو کامیابی سے منزل تک پہنچانا ایک مکمل سائنس ہے۔ عوامی جذبات کی ترجمانی اور عوام کے حقوق کے حصول کی کوششیں دو مختلف راستے ہیں لیکن منزل پر پہنچنے کے لیے واضع موقف، اتحاد اور مستقل مزاجی کو یقینی بنانا ہی واحدحل ہے۔ دنیا میں جتنی تحریکیں بھی کامیاب ہوئیں ، انہی اصولوں کے تحت ہوئیں۔پچھلی صدی کی بات کی جائے تو امریکہ کی منٹگمری بس بائیکاٹ تحریک نے کامیابی کے اصول وضع کیے۔ دسمبر 1955 میںامریکی ریاست الاباما میں سیاہ فام لڑکی روزا پارک دفتر سے گھر جانے کے لیے بس پر سوار ہوئی۔ اس وقت بس کے اندر ایک لکیر کھینچی جاتی تھی۔ ایک طرف سفید فام اوردوسری جانب سیاہ فام بیٹھتے ۔ ظالم قانون یہ تھا کہ اگر بس میں سفید فام زیادہ ہو جائیں تو سیاہ فام ان کے لیے اپنی نشست چھوڑ دیں۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو عدالت کی جانب سے جرمانہ اور جیل کی سزا دی جاتی ۔کنڈیکٹر نے روزا پارک سے نشست خالی کرنے کے لیےکہا لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں صرف اس بنیاد پر نشست خالی نہیں کر سکتی کہ میرا رنگ سیاہ اور دوسرے کا سفید ہے۔میں جیل جانے اور جرمانہ بھرنے کے لیے تیار ہوں لیکن انسانی حقوق پر سمجھوتہ نہیں کروں گی۔ اسے چودہ ڈالر جرمانہ اور چند دن کی سزا ہوئی لیکن اس واقعہ کی کوکھ سے ایک ایسی مزاحمت نے جنم لیاجو انسانی برابری کی تحریک کا ایک اہم سنگ میل بن گئی۔اسے عہدوں، ڈالروں اور ڈیلوں کی پیش کش ہوئی لیکن اس نے مراعات لینے سے انکار کر دیا اور اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔شاید وہ جان چکی تھی کہ نظریے پر سمجھوتہ نہ کرنا ہی کامیابی کا اصول ہے۔ اس کی ثابت قدمی نے سیاہ فام امریکیوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ تین سو بیاسی دن احتجاج ہوا، مظاہرے کیے گئے اور اس دوران ایک بھی سیاہ فام بس میں نہیں بیٹھا۔ ایک طویل آئینی جنگ، مظاہروں اور مباحثوں کے بعد امریکی ریاست کو گھٹنے ٹیکنا پڑے۔ امریکی ریاست ایک لڑکی کے احتجاج کے سامنے بے بس ہو گئی۔ نیا قانون منظور ہوا اور بسوں میں تفریق کی لکیر ہمیشہ کے لیے ختم کر دی گئی۔ سیاہ فام اور سفید فام برابر ہو گئے۔ ’’ظلم اس وقت تک ظلم ہے جب تک اسے للکارا نہ جائے‘‘۔روزا پارک نے یہ کہہ کر ظلم کی ساری نفسیات کو آشکار کر دیا۔اس کے علاوہ سلما ووٹنگ رائٹس موومنٹ اور بلڈی سنڈے جیسی کئی کامیاب تحریکوں میں کامیابی کے فارمولے پوشیدہ ہیںجس کا بانی مارٹن لوتھرکنگ تھا۔ صرف انتالیس سال کی عمر میں اس نے عوام کو متحرک کرنے اوراپنی منزل کے حصول کی جنگ میں انتہائی گہرے اور پائیدار نقوش ثبت کیے۔ ا س کی کامیابی کی وجہ ایک اصولی موقف تھا ،ایک خواہش تھی، ایک خواب تھا۔ مارٹن لوتھر کنگ کی خواہش تھی کہ جب وہ مرے تو لوگ یہ مت کہیں کہ کنگ یہاں پیدا ہوا، فلاں اسکول سے پڑھا اور وہ دنیا کا سب سے کم عمر نوبل پرائز ونر تھا بلکہ لوگ صرف اس جدوجہد کی بات کریں جو اس نے انسانیت کی بھلائی کے لیے کی۔اسے خریدنے کی کوشش کی گئی۔جب کوئی حربہ کامیاب نہ ہوا تو اسے قتل کر دیا گیا۔ اس نے اصولوں کو زندگی پر ترجیح دی۔ شاید تحریکوں کو کامیاب کرنے کا فارمولا یہی ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ احتجاج کی بات کی جائے اور بلیک پاور موومنٹ کو یاد نہ کیا جائے۔ اس تحریک کی کامیابی میلکم ایکس کے طے کیے گئے اصولوں کے باعث ممکن ہوئی۔ اس سیاہ فام امریکی سیاستدان کی زندگی بغاوت ،اصول اور درد و غم کی تصویر ہے۔اس کی خود نوشت سوانح عمری ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو ظلم سے نفرت کرتا ہے اور اچھے سماج کے خواب دیکھتا ہے۔ یورپ سے زنجیروں میں جکڑ کر غلام بنا کر لائے گئے سیاہ فاموں کی جو کہانیاں میلکم ایکس نے لکھیں اور یکساں انسانی حقوق کے حصول کے لیے جو اصول اس نے وضع کیے‘ ظلم اور نا انصافی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ان امریکی سیاہ فاموں کی اصولی احتجاجی تحریکوں کا ہی نتیجہ ہے کہ سیاہ فام باراک اوبامہ امریکی صدر بنا اورکچھ عرصہ قبل امریکہ میں ایک سیاہ فام عام شہری کی موت نے سفیدفام امریکی صدر کے لیے الیکشن جیتنا مشکل بنا دیا ہے۔ بلاشبہ امریکی معاشرے نے احتجاجوں اور تحریکوں سے بہت کچھ سیکھا ہے لیکن ہمارے لیے اہم یہ ہے کہ کیا پاکستانی معاشرہ بھی اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے کے اصول سیکھ چکا ہے؟ آج کی تاریخ میںکوئی بھی دعویٰ کرنا قبل از وقت ہو گا۔ بظاہر نظریے پر سمجھوتے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے اور امید کی جا رہی ہے کہ کامیاب امریکی تحریکوں کے اصولوں کو اپنا کر جلسوں سے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)