• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کابل حکومت دوحہ معاہدے سے انحراف چاہتی ہے، طالبان ترجمان


کراچی(ٹی وی رپورٹ) ترجمان سیاسی دفتر تحریک طالبان افغانستان ڈاکٹر محمد نعیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کا کردار نہایت اہم ہے، پاکستان افغان امن عمل کی کامیابی کیلئے خلوص دل کے ساتھ کوشش کررہا ہے، کابل حکومت سے مذاکرات میں بہت سے اہم نکات پرا تفاق ہوچکا ہے، ریاستی نظام اور اس کے طرزعمل سے متعلق نکات پر بھی جلد اتفاق ہوجائے گا، کابل حکومت قرآن کو آڑ بنا کر دوحہ معاہدے سے انحراف کرنا چاہتی ہے، قرآن و سنت کے مطابق اسلامی نظام دینے کی بات آئے تو کابل حکومت پیچھے ہٹ جاتی ہے، افغانستان کے عوام اور امارات اسلامیہ اسلامی اصولوں کے عین مطابق نظام کے خواہشمند ہیں۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کررہے تھے۔ ڈاکٹر محمد نعیم نے مزید کہا کہ بین الافغان مذاکرات دوحہ قطر اور امریکا کے معاہدے کی بنیاد پر شروع کئے گئے، دوحہ معاہدے میں طے ہوا تھا کہ امارات اسلامیہ کے 5ہزار اور افغان حکومت کے ایک ہزار قیدی بازیاب کئے جائینگے، معاہدے پر عمل کرنا ضروری تھا لیکن قیدیوں کی بازیابی کے معاملے پر افغان حکومت تحفظات ظاہر کررہی ہے، کابل حکومت کو افغان طالبان اور امریکا معاہدے کی کچھ شقوں پر اعتراض تھے تو اسی وقت بتانا چاہئے تھا۔ ڈاکٹر محمد نعیم کا کہنا تھا کہ کابل حکومت سے اختلافی نکات میڈیا کے سامنے نہ لانے پر اتفاق ہوا تھا لیکن انہوں نے دو تین دفعہ اس کی خلاف ورزی کی، یہ بات غلط ہے کہ امارات اسلامی امن نہیں چاہتی، ہم افغان امن عمل میں سنجیدہ اور مخلص ہیں ، قیام امن کیلئے ہم نے مثبت اقدامات کیے ہیں، ہم نے معاہدے کے بعد جنگی اور فدائی کارروائیاں روک دی ہیں اور بات چیت سے ہی اتفاق رائے تک پہنچنے کی کوشش کی، نائب صدر پر خودکش حملے سے افغان طالبان کا کوئی تعلق نہیں ہے، امریکا کے ساتھ پچھلے 18مہینے میں جنگ کے ساتھ بات چیت بھی ہورہی تھی۔ ڈاکٹر محمد نعیم نے کہا کہ افغانستان کے مسائل لفاظی سے حل نہیں ہوسکتے، ہمیں مذاکرات کی ضرورت ہے تاکہ متفقہ حل نکالا جاسکے، امریکا کی جانب سے بھی کچھ علاقوں میں معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی، افغانستان میں جنگی حالات بیرونی افواج کی وجہ سے پیدا ہوئے، بیرونی افواج نے ہمارے ملک پر قبضہ کیا ہم نے انہیں نکالنے کیلئے جدوجہد کی، اسلامی نظام کا قیام چاہتے ہیں جہاں افغانستان مکمل طور پر آزاد ہو، ہم نے کسی کو مارنے کیلئے نہیں اپنی قوم کی آزادی اور خودمختاری کیلئے جدوجہد کی۔ ڈاکٹر محمد نعیم کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ امریکا اور امارت اسلامیہ کے درمیان معاہدے پر من و عن عمل کیا جائے، مذاکراتی ٹیم میں کابل حکومت کے رہنماؤں سمیت مختلف جہادی تنظیموں کے اکابرین شامل ہیں، بین الافغان مذاکرات میں جو بھی شامل ہونا چاہے اس کیلئے ہمارے دروازے کھلے ہیں، پاکستان افغان امن عمل کی کامیابی کیلئے خلوص دل کے ساتھ کوشش کررہا ہے، تمام پڑوسی ممالک افغانستان کے امن کیلئے مثبت کردار ادا کریں،افغانستان کی بدامنی کا اثر پاکستان اور دیگر پڑوسی ممالک پر بھی پڑتا ہے۔ ڈاکٹر محمد نعیم نے کہا کہ افغانستان میں لڑائی کو دوام دینے والوں کو سخت نقصان ہوگا، عبوری حکومت کیلئے کوئی کوشش کررہا ہے تو اس کا وقتی فائدہ ہوسکتا ہے لیکن وہ بھی نقصاندہ ہے، افغان مسئلہ کا اصل حل مستقل اور پائیدار نظام ہے، مذاکرات ایجنڈے کے مرحلہ پر جائیں گے تو ریاست کے نظام پر بات کریں گے، ریاست کے نظا م اور آئین پر بات ہوگی تب اپنی تجاویز پیش کریں گے۔ڈاکٹر محمد نعیم نے کہا کہ عورتوں کے حقوق اسلامی قانون اور ہماری اقدار کے مطابق ہوں گے، عورتوں کیلئے اسلام میں موجود تمام حقوق جن کا تعلق تعلیم، روزگار یا ملکیت سے ہے ہم انہیں دیں گے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہؓ نے بھی تجارت کی، اسلام میں عورتوں کی تجارت کرنے کے طریقہ کار موجود ہیں، امارات اسلامیہ کے پہلے دور میں بھی خواتین کام کرتی تھیں۔ ڈاکٹر محمد نعیم کا کہنا تھا کہ افغانستان کی سرزمین کسی پڑوسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، غیرملکی افواج کے انخلاء کے نتیجے میں امارات اسلامیہ ایسے بیرونی عناصر کو افغانستان آنے کی اجازت نہیں دے گی جو کسی بھی ملک کیلئے بدامنی یا نقصان کا سبب بنے، امریکا کے ساتھ معاہدے میں داعش کیخلاف مل کر لڑنے کی کوئی شق نہیں ہے، امارات اسلامی ایسے عناصر کا قلع قمع کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے، ہمیں داعش وغیرہ کیخلاف کسی بیرونی قوت کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈاکٹر محمد نعیم نے کہا کہ امارات اسلامی کسی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتی ہے نہ کسی کو اپنے داخلی معاملات میں مداخلت کی اجازت دیتی ہے، اپنے زیرانتظام علاقوں میں کسی کو اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے ، امریکا کے ساتھ اتفاق رائے تک کا سفر مثبت اور نیک اقدام ہے جس میں سب کا فائدہ ہے، تمام بیرونی قوتوں سے افغانستان کے پائیدار امن میں حصہ ڈالنے کی درخواست کرتے ہیں۔

تازہ ترین