’’چھوٹو ،دو کڑک چائے لانا،چینی کم ‘‘
ـ’’چھوٹو،چاروں ٹائروں کی ہوا چیک کرنا،احتیاط سے ،25پوائنٹ سے زیادہ نہ رکھناـ‘‘
’’چھوٹو ،ذرا پلگ پانا اور 13کی چابی پکڑانا ‘‘
’’چھوٹو،یہ بھائی کی شیو کرنی ہے ،تولیہ باندھ کر کریم لگائو ،شیو میں خود بنائوں گاـ‘‘
چھوٹو ،بھاگ کر جائو اور جلدی سے دو سگریٹ پکڑ لائو ‘‘
چھوٹو ،ہمارے معاشرے کا جانا پہچانا اور معروف کردار ہے جس کے بغیر معمولات زندگی کا تصور بھی محال ہے۔چھوٹو کی زندگی جانوروں سے بھی بدتر ہوتی ہے ،یہ گھر میں صفائی کرنے سے پانی پلانے تک ہر کام کرتا ہے ،بازار سے ضرورت کی تمام اشیاء لاتا ہے ،والدین کی ڈانٹ ڈپٹ برداشت کرتا ہے ،محلے داروں کی کڑوی کسیلی باتیں سنتا ہے ’’استاد ‘‘ کی مار پیٹ سہتا ہے مگر پھر بھی خوش رہتا ہے ۔ہاں مگر ان میں سے بعض چھوٹو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر محض کڑھتے نہیں بلکہ معاشرے سے انتقام لینے پر اتر آتے ہیں۔شروع میں یہ پاکٹ مارتے ہیں ،چھوٹی موٹی چوریاں کرتے ہیں اور جب جرائم پیشہ افرادکے ہتھے چڑھ جاتے ہیں تو ان کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں ۔اگر یہ ’’چھوٹو‘‘ گائوں میں ہو تو چوری ڈکیتی میں نام سامنے آتے ہی گائوں کے زمیندار اور وڈیرے انہیں اپنے سایہ عاطفیت میں پناہ دیتے ہیں تاکہ وہ خود ان کے شر سے محفوظ رہیں ۔یہ چھوٹو علاقے کے جاگیردار کی اشیر باد ملنے کے بعد تہلکہ مچا دیتے ہیں ،جب کبھی دبائو بڑھتا ہے اور پولیس کارروائی کرنے لگتی ہے تو چھوٹو کے اٹھائی گیر اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہیں اور یوں معاملہ ٹھپ ہو جاتا ہے۔اس کے بدلے میں ان جاگیر داروں اور زمینداروں کو علاقے میں رعب و دبدبہ اور دہشت قائم رکھنے کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔جو شخص سر اٹھا کر چلنے کی کوشش کرتا ہے ،چھوٹو جیسے بدمعاش اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں ۔اس کی گندم کی فصل جلا دی جاتی ہے،اس کے مویشی چوری کر لئے جاتے ہیں اور پھر بھی باز نہ آئے تو اس کی بیٹی اٹھا لی جاتی ہے۔جب ان پے در پے مظالم کے بعد وہ شخص جاگیردار اور وڈیرے کے در پر آ کر گھٹنے ٹیکتا ہے اور معافی کا خواستگار ہوتا ہے تو اسے امان دیدی جاتی ہے اور بیٹی واپس کر دی جاتی ہے۔انتخابات لڑنے میں یہ ’’چھوٹو‘‘ کلیدی اور فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں ۔اگر آپ نے نانا پاٹیکر کی فلم ’’غلام مصطفی‘‘ دیکھی ہے تو تفصیل میں جانے کی حاجت نہیں ۔اس فلم میں نہ صرف چھوٹو کے کردار کو بخوبی اجاگر کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہمارے سماج کے ٹھیکیدار کس طرح ایسے کردارتخلیق کرتے ہیں ،اپنے مذموم مقاصد کے لئے انہیں استعمال کرتے ہیں اور پھر پولیس مقابلے میں مروا دیتے ہیں۔
مگر میں آج جس ’’چھوٹو‘‘ کا ذکر کرنے لگا ہوں اس کا نام غلام مصطفی نہیں بلکہ غلام رسول ہے۔اس شخص کا تعلق راجن پور کی تحصیل روجھان میں کچے کے علاقے سے ہے ۔یہ وہی شخص ہے جس نے پنجاب پولیس کو ناکوں چنے چبوا رکھے ہیں ۔اس کے خلاف ماضی میں بھی پانچ پولیس آپریشن ہو چکے ہیں مگر سب کے سب ناکام ہوئے۔چھٹا آپریشن مسلسل کئی ہفتوں سے جاری ہے اس آپریشن میں 1600پولیس اہلکارجبکہ پاک فوج اور رینجرز کے 1800جوان حصہ لے رہے ہیں مگر ابھی تک کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔سب انسپکٹر حنیف غوری سمیت 6اہلکار جام شہادت نوش کر چکے ہیں ،24اہلکار چھوٹو گینگ نے یرغمال بنا رکھے ہیں ۔راجن پور دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے ۔اس کے ایک طرف رحیم یار خان اور کشمور کا علاقہ ہے تو دوسری طرف ڈیرہ بگٹی اور کوہ سلیمانی کا پہاڑی سلسلہ ۔چھوٹو گینگ کچے کے جس علاقے پر قابض ہے اس کا محل وقوع اس طرح سے ہے کہ دریائے سندھ کے دو پاٹ ہیں جن کے درمیانی خشک علاقے نے جزیرے کی صورت اختیار کر لی ہے اس درمیانی علاقے کی وسعت کہیں ایک کلومیٹر ہے تو کہیں چوڑائی سات کلومیٹر تک پھیل جاتی ہے ۔اس جزیرے میں جنگل ہے جہاں چھوٹو گینگ نے مورچے اور بنکر بنا رکھے ہیں ۔ان تک رسائی کا ایک ہی راستہ ہے کہ لانچوں کے ذریعے پیشقدمی کی جائے مگر ایسی صورت میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا احتمال ہے ،دوسری صورت یہ ہے کہ اس علاقے پر بمبار کی جائے مگر ایسی صورت میں مغوی پولیس اہلکار مارے جائیں گے۔یوں ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ابھی تک لاچار و بے بس نظر آتے ہیں اور ان کی کوشش یہ ہے کہ کسی طر ح مغوی اہلکار رہا کروالئے جائیں تو پھر دھاوا بولا جائے مگر چھوٹو گینگ کو معلوم ہے کہ یہ ڈھال ختم ہو گئی تو پھرکوئی راستہ نہیں بچے گا لہٰذا ان کا اصرار ہے کہ محفوظ راستہ دیا جائے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حکمت عملی یہ ہے کہ غلام رسول عرف چھوٹو کے بیٹے کو حراست میں لیا گیا ہے جو مری میں ایم بی بی ایس کر رہا ہے،اس کے بھائی اور دیگر اہلخانہ کو گرفتار کیا گیا ہے اور اسے دھمکی دی گئی ہے کہ اگر اس نے مغوی پولیس اہلکاروں کو نہ چھوڑا تو اس کے خاندان کو قتل کر دیا جائے گا۔اس سے قبل ہونے والے پانچوں آپریشنز میں بھی چھوٹو گینگ نے پولیس اہلکاروں کو اغواء کر کے اپنے پتھارے داروں کے ذریعے محفوظ راستہ حاصل کیا ۔قبل ازیں چھوٹو کو بلخ شیر مزاری کے بھتیجے اور قومی اسمبلی کے رکن سلیم جان مزاری نے محفوظ راستہ دلوایا ۔
روجھان مزاریوں کا علاقہ ہے اور چھوٹو کا تعلق مکرانی خاندان سے ہے جواس علاقے میں نچلی ذات سمجھی جاتی ہے ۔میرا خیال تھا شاید چھوٹو پستہ قامت ہو گا مگر معلوم ہوا کہ اسے اپنے جسمانی قد کی بنیاد پر نہیں بلکہ معاشرتی حیثیت کی بنیاد پر چھوٹو کہا جاتا تھا۔اس نے شروع میں مسلم لیگ (ن) کے ایک ایم پی اے کے ہاں ڈرائیور کی حیثیت سے کام شروع کیا اور پھر اپنے طے شدہ راستے پر چلتا ہوا علاقے کا معروف ڈاکو بن گیا۔یہاں تک کہ علاقے کے کسان اپنی آدھی فصل اسے دینے لگے۔سندھ کے لانگ گینگ نے چھوٹو گینگ سے اشتراک کر لیا اور اس اشتراک عمل کے تحت سندھ سے لوگوں کو تاوان کیلئے اغواء کر کے یہاں لایا جانے لگا ۔انڈس ہائی وے پر وارداتیں ہونے لگیں ،اس دوران ریاست حسب معمول سوئی رہی ۔پولیس کو نامعلوم وارداتوں کا ملبہ ڈالنے کیلئے ایک ’’چھوٹو‘‘ میسر آگیا تھا ،اسے اور کیا چاہئے تھا۔یہاں تک کہ جب قتل ،اقدام قتل ،ڈکیتی اور اغوائے برائے تاوان کے 48 سے زائد مقدمات قائم ہو گئے ،چھوٹو کے سر کی قیمت 20لاکھ روپے مقرر کر دی گئی ،چھوٹو جزیرہ آباد ہو گیا اور جرائم پیشہ افراد کا گڑھ بن گیا تو دھڑا دھڑ آپریشن ہونے لگے۔نہ جانے کیوں ہمارے آپریشن معمولی پھوڑے کا علاج کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے اور تب آپریشن کرتے ہیں جب یہ معمولی پھوڑا ناسور بن جاتا ہے۔گاہے سوچتا ہوں ،یہ ’’چھوٹو‘‘ بھی کتنی بڑی نعمت ہے ،اگر یہ چھوٹو نہ ہوں تو ہمارا نظام دھڑام سے گر جائے۔