ٹھل میں معمولی سی بات پر ہونے والے جھگڑے نے ایک معصوم بچے سمیت دو افراد کی جان لے لی اور ایک زخمی بھی ہوگیا ۔ پولیس کی لاپرواہی نے لوگوں کو مشتعل کردیا، جس کے باعث بہت نقصان ہوا ۔ مشتعل ہجوم نے نہ صرف پولیس پر پتھراٶ کیا، بلکہ ایک ملزم کے گھر کو مہندم کرنے کے علاوہ سامان کو بھی آگ لگا دی۔ یہ واقعہ ٹھل تھانہ اے سیکشن میں پیش آیا ، بتایا جاتا ہے کہ کچھ عرصے قبل ٹھل بائی پاس پر طاہر خان کھوسہ ہاٶسنگ اسکیم میں رہنے والے وحید گھنیہ اور ڈاکٹر احمد نوناری کے مابین بجلی کے تار کی معمولی بات پر جھگڑا ہوگیا، جس پر گھنیہ برادری کے افراد نے ڈاکٹر احمد نوناری اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کرکے انہیں سخت زخمی کردیا۔
پولیس نے ایف آئی آر درج کرکے گھنیہ برادری کے کچھ افراد گرفتار کرلیا، جس کے تصفیہ کے لیے معززین نے مداخلت کرکے منتھ میڑ کے قافلہ لے کر نوناری برادری کو تصفیہ کے لیے راضی کر لیا، جس کا فیصلہ بھی ہوگیا ۔فیصلے میں گھنیہ برادری کو قصور وار ٹھرایا گیا اور ان پر جارحیت کرنے کا جرمانہ دو لاکھ روپیہ بھی عائد کیا گیا، جس کے بعد فریقین شیر و شکر ہوگئے ۔تا ہم اس کے باوجود ایک ایسا دل خراش واقعہ پیش آیا، جس سے نہ صرف کشیدگی بڑھی، بلکہ متعدد گھر اجڑ گئے ۔
ہوا یُوں کہ گزشتہ ہفتے دن کے تقریبأ 3 بجے نزدیکی محلے کا ایک نوجوان اخلاق کھوسہ اپنے ملازم سعید بھٹی کو ساتھ لےکر اپنے بچوں کو دکھانے کی غرض سےڈاکٹر احمد نوناری کو لینے کے لیے کلینک آیااور ڈاکٹر احمد نوناری کو اپنی موٹر سائکل پرلےکر گھر کی طرف روانہ ہوا تو پہلے سےتاک میں کھڑے ملزمان نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔
جس کے نتیجے میں11 سالہ معصوم سعید بھٹی۔اخلاق کھوسہ اور ڈاکٹر احمد نوناری شدید زخمی ہوگئے، جن کو فوری طور پرسول ہاسپٹل ٹھل لے جایا گیا، لیکن راستے میں سعید بھٹی دم توڑ گیا، جب کہ ڈاکٹر احمد نوناری کو تشوش ناک حالت میں لاڑکانہ بھیج دیا گیا اور وہاں سے ان کو اسی حالت میں کراچی منتقل کیا گیا۔وہ کراچی کے ایک ہسپتال میں ایک ہفتے تک اپنی زندگی کی جنگ لڑتا رہا۔
لیکن وہ جنگ ہار گیا اور زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔ ایک زخمی اخلاق کھوسہ کا علاج جاری ہے۔ واقعے کی ایف آئی آر وحید،عظمت،محمد بخش اور عبدالستار سمیت 6 افراد کے خلاف درج کرلی گئی ہے۔ تاہم پولیس کی روایتی سستی اور لاپرواہی ایک ھفتےتک کسی ایک ملزم کو بھی گرفتار نہ کرسکی، جس کے باعث متاثرین میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ خصوصأ نوناری برادری میں اس وقت شدید اشتعال پھیل گیا۔
جب ان کو ڈاکٹر احمد نوناری کے انتقال کی خبر پہنچی ۔ مشتعل ہجوم نے ملزمان کے گھر پر پہرہ دینے والے پولیس اہلکاروں کی خُوب پٹائی کی اور ان پر پتھراؤ کیا، جس سے متعدد پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے، پولیس کو دوڑانے کے بعد مشتعل افراد نے ملزم وحید کے گھر پر دھاوا بول دیا اور گھر کو مہندم کرکے گھر کے سامان کو آگ لگا دی، جس سے گھر کا سارا سامان جل کر راکھ ہوگیا۔ بعد ازاں مشتعل ہجوم نے لاش رکھ کر بائی پاس اور بعدازاں رھبر چوک پر دھرنا دےکر روڈ بلاک کردیا۔
جس کے باعث ٹریفک معطل ہوگئی۔ پولیس نے نوناری برادری کے معززین سے مذاکرات کے بعد روڈ کھلوایا۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دو ملزمان عظمت اور محمد بخش کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔ پولیس اگر پہلےاس طرح کی کارروائی کرتی تو جلاؤ،گھیراؤاور پتھراؤ کے واقعات رونما ہونے کی نوبت ہی نہ آتی اور نہ ہی اتنا بڑا نقصان ہوتا، کیوں کہ لواحقین ملزمان کی عدم گرفتاری پر غصے میں تھے۔ بہرکیف یہ واقعہ فیصلہ کے بعد کیوں رونما ہوا۔ اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ گھنیہ برادری اس فیصلے سے ناخوش تھی، جس کے باعث یہ واقعہ رونما ہوا۔
بہرحال جو کچھ ہوا، انتہائی خراب ہوا، تھوڑی سی ہٹ دھرمی اور انتقام کی آگ نے متعدد گھر اجاڑ دیے۔انتقام کی آگ بھی ایسی بھڑکی کہ یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ مقتول ڈاکٹر کے ساتھ کھوسہ اور بھٹی برادری کے لوگ ساتھ ہیں اور ان کو بےگناہ قتل نہیں کرنا چاہیے۔بہرحال ملزمان نے 3گھروں کو اجاڑنے کے بعداپنے انتقام کی آگ تو ٹھنڈی کرلی ، لیکن اب 3 خاندانوں کے افراد کے سینوں میں لگی آگ کون بجھائےگا، کون معصوم پھول سعید بھٹی کی ماں کو دلاسہ دےگا؟ ۔کون ڈاکٹر احمد کے بچوں کا سہارا بنے گا؟ کون زخمی اخلاق کھوسہ کے خاندان کو تسلی دےگا؟
متوفی سعید بھٹی کے لیے بتایا جاتا ہے کہ وہ حافظ قران بننا چاہتا تھا ،انہوں نے قران شریف کے سات سیپارے بھی حفظ کر لیے تھے۔ اب ان کے والدین کی حسرتیں کون پوری کرے گا۔ اسی طرح ڈاکٹر احمد نوناری کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو کون کھلائےگا اور ان کی تعلیم وتربیت کا کون خیال کرےگا ۔ وہ گھر کا واحد کفیل تھا ۔ بہر کیف انسان کو بڑا واقعہ کرنے سے پہلےسوچنا چاہیے اور انتقام کی عینک اتار کر دیکھنا چاہیے، اگر ایسا نہ ہوا تو ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں کے۔ ناحق گھر برباد ہوتے رہیں گے اور بے گناہ خاندان اجڑتے رہیں گے۔