فیصل حنیف
نعت عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معانی وصف یا خوبی کے ہیں-نعتِ رسول دراصل اصناف سخن کی وہ نازک صنف ہے، جس میں طبع آزمائی کرتے وقت اقلیم سخن کے تاجدار حضرت مولانا جامیؔ نے فرمایا ہے:
لا یُمکن الثناء کما کان حقّہٗ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
عربی اور فارسی کے بعد برصغیر میں سندھی زبان میں سب سے پہلے نعتیں لکھی گئیں۔ اس کی وجہ سندھی زبان کا سب سے پہلے عربی کے زیر اثر آنا تھا- فارسی شعراء اپنے دیوان کے آغاز میں نعت رسول پاکؐ شامل کرتے تھے - اردو میں محسن کاکوروی نے نعت گوئی کو رواج دیا - احمد رضا خان بریلوی نے اسے عروج تک پہنچا دیا اور عشق رسولؐ میں ڈوب کر نعتیں لکھیں - ویسے تو اردو میں باقاعدہ نعت گوئی کا آغازسولھویں اور سترھیوں صدی میں ہواجب اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعرسلطان محمد قلی قطب شاہ نے نعت کی مستقل حیثیت قائم کی۔
اٹھارویں صدی عیسوی میں ولیؔ دکنی کا نعتیہ کلام اردو نعت کے ارتقائی سفر میںا یک نئی منزل کی نشاندہی کرتا ہے۔خواجہ الطاف حسین حالیؔ اردو شاعری کے دورِ جدید کے اہم نعت گوشاعر ہیں ،جن سے اردو میں نعت گوئی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ حالیؔ کا نعتیہ کلام مقدار میں بہت کم ہے لیکن معیارمیں بہت اعلیٰ وارفع ہے۔
ان کے علاوہ جن شعراء نے اس فن میں طبع آزمائی کی ان میں مشہور اور مقبول عام امیر مینائی، محسن کاکوروی، جگر مرادآبادی، اقبال سہیل، ؔ حفیظ جالندھری، ماہر القادری، حمید صدیقی، نشور واحدی، ثانی حسنی، عامر عثمانی، تسنیم فاروقی،جلیل مانک پوری،رئیس نعمانی،سید عبدالفتاح اشرفؔ علی گلشن آبادی،امجد حیدرآبادی، ظفر علی خان علیگ، ہمسر قادری،مظفر وارثی، اعجاز رحمانی، ابوالمجاہد، فضا ابن فیضی، ساجد صدیقی، تابش مہدی، افسر امروہوی اور ابرار کرتپور شامل ہیں۔
نعتیہ شاعری میں نہ صرف شعروسخن کی آزمائش ہوتی ہے بلکہ اس کسوٹی پر عقیدۂ توحیدورسالت اور عشق حقیقی کی پرکھ بھی بدرجہ اتم ہوتی ہے۔
حالی نے اپنی مشہور زمانہ 'مسدس میں نعت کا حصہ شامل کیا اور طویل مسدس میں کچھ بند نعتیہ انداز کے تحریر کیے-
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصبیت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرایے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولا
حالی کا یہ انداز اور بھی بہت سے شعراء نے اپنایا- مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر شعراء کو دعا اور فریاد کے لیے رسول پاکؐ کی ذات گرامی کے علاوہ کوئی نظر نہیں آیا - اسی رنگ میں اقبال کی نظم’ 'اے روح محمدؐ کے دو اشعار ملاحظہ کریں
شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر
اب تو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کر اے روح محمدؐ
آیات الہی کا نگہبان کدھر جائے
بیسویں صدی کے نصف اول اور بعد میں یوں تو بہت سے شعراء نے نعت خوانی کی لیکن نعت کے افق پر جو نام چھا ئے، ان میں بیدم وارثی، حسرت موہانی، اختر شیرانی اور مولانا ظفر علی خان شامل ہیں- ڈرامہ نگار آغا حشر نے بھی بہت عمدہ نعتیہ کلام لکھا ہے-
مولانا ظفر علی خان کاخاص کمالیہ تھا کہ انھوں نے صنف نعت گوئی میں حدود شرعیہ کا پورا پورا خیال رکھا اور اس میں تغزل کے بجائے اپنی نعت کے لیے علمی پیرایہ اظہار اختیار کیا- آغا شورش کاشمیری لکھتے ہیں "ان (ظفر علی خان) کے نعتیہ کلام کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ وہ حضورؐ کی سیرت کا نقشہ اور ان کے محاسن کی تصویر اس کمال سے کھینچتے ہیں کہ آنکھوں کے سامنے سیرت النبیؐ چلتی پھرتی نظر آتی ہے-"
ان کی نعتوں میں بحریں بھی متنوع ہیں اورموضوعات بھی-
فرشتے یہ کل عرش پر کہہ رہے تھے
کہ قیصر و کسری ہیں دربان احمدؐ
ارسطو کی حکمت ہے یثرب کی لونڈی
افلاطون ہے طفل دبستان احمد
اس کےبعد نعت گو شعراء میں اہم نام سیماب اکبر آبادی، ماہر القادری، شورش کاشمیری ، حفیظ جالندھری، احسان دانش ، ساغر صدیقی اور طفیل ہوشیارپوری شامل ہیں-
ظفر علی خان کاشعر،جس سے حرارت اور زندگی محسوس ہوتی ہے، ہم سب نے ہزاروں مرتبہ سنا ہوگا۔
دل جس سے زندہ ہے، وہ تمنا تم ہی تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تم ہی تو ہو