• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موزیک رُوم کا اپنا حُسن تھا اور Sarco Phagusکا اپنا۔ پتھروں کے رومن تابوتوں اور کتبوں کی فنی باریکیاں حیران کردینے والی تھیں،القصر غیر معمولی قسم کے تعمیراتی شاہ کاروں کا نمونہ تھا، توحمّام بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اندر جاتے ہی احساس تو ہوگیا تھا کہ یہ بڑی انوکھی چیز ہے،جس کی تعمیر الفانسوXI نے کروائی تھی۔ تبدیلیوں پر تو وہی اصول چلتا ہے کہ ’’ہرکہ آمدعمارتِ نو ساخت ‘‘(جو آیا اس نے ایک نئی عمارت بنائی)کے مصداق اس میں ردّوبدل کرنا اور اسے اپنے مزاج کے مطابق بنانا تو لازم ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ1931ءمیں ثقافتی وَرثہ قرار دیتے ہوئےاسے ورلڈ ہیریٹیج نے لے لیا۔

مجھے تو اِن ورلڈ ہیریٹیج والوں کی سمجھ نہیں آتی کہ یہ آخر یورپ والوں ہی کی چیزیںکیوں گود لیتے ہیں۔ ہم غریبوں پر نظرِکرم کیوں نہیں کرتے؟ ہمارا قلعہ اور شیش محل کو ئی کم خُوب صُورت ہیں؟ کیا وہ تاریخی و ثقافتی حوالوں سے کسی سےکم تر ہیں؟اس پہ ہمارے حکمران (کھوٹے سکّے) اپنی محل باڑیوں کے لیے مضطرب و بے چین۔ قومی اہمیت کی اہم چیزوں کے تو بُندے، کانٹے سب اُتارکر اپنا دامن بھرلیں۔ ہمیں بھی کیسےعجیب و غریب حکمران ٹکَرے ہیں۔ یقینا ًہمارے ہی گناہوںکی سزا ہیں۔

خیر،القصرکے باغات کے ساتھ چلتی،دو میٹر چوڑی اور چھے میٹر اونچی تاریخی فصیلِ شہر کو دیکھنا بھی دل چسپ تجربہ تھا۔جابجا تھوڑے تھوڑے فاصلوں پر بنے محرابی دروازوں کے سامنے بلند پیڈسٹلزپر دنیا کی تاریخ متاثر کرنے والے مسلمان فلاسفر ابی سینا ،ابنِ رشد، ابن الہیثم کہیں کھڑے کہیں بیٹھے نظر آرہے تھے۔جن کی عظمت کے سامنےسرنگوں تھا۔ ابنِ رُشد جیسے عظیم فلسفی کی، (جسے یورپ ایویروس Averroesکہتا ہے) سوچ و فکر اور نظریات سے جس طرح یورپ متاثر ہوا، مسلمانوں کی تاریخ اِس سے بہت حد تک محروم نظر آتی ہے۔

ابنِ رُشد، عظیم یونانی فلسفی ارسطو سے نہ صرف متاثر تھا، بلکہ اس نے اسلامی فکرو نظر اور سوچ کو ارسطو کے خیالات سے ملا کر کائنات کی حقیقت سمجھنے کی بھی کوشش کی۔ ارسطو کو یورپ میں متعارف کروانے کا اعزاز بھی ابنِ رُشد ہی کے کھاتے میں جاتا ہے۔دَراصل مراکش کا خلیفہ یوسف یعقوب فلسفہ پڑھنے کا بہت شوقین تھا۔وہ ارسطو کو دنیا کا سب سے عظیم فلسفی مانتا تھا،افلاطون سے بھی بڑا۔

عربی زبان میں اس کی تصانیف کے بہت سے ترجمے ہوچُکے تھے اور یُوسف یعقوب نے تمام کے تما م پڑھ رکھےتھے۔ مگر دل چسپ بات یہ تھی کہ ہر ترجمہ دوسرے سے مختلف تھا۔سو،اس نے ابنِ رُشد سے کہا کہ ’’وہ اُن سب تراجم کو اکٹھا کرے ۔‘‘اسی تگ و دو میں ابنِ رشد نے جانا کہ تراجم میں مترجّم کے خیالات بھی ارسطو کی سوچ میں مل گئے ہیں۔پھرابنِ رُشد نے ارسطو کی حقیقی سوچ پر آسان زبان میں کمنٹری لکھی اورعربی زبان سے لاطینی میں ترجمہ کیا۔

یہی کتابیں جب یورپ پہنچیں، تواہلِ یورپ ارسطو سے متعارف ہوئے۔حقیقت تو یہی ہے کہ بارہویں اور تیرہویں صدی کے تمام یورپی فلسفی اور دانش وَر ابنِ رُشدکے ممنون ہیں کہ یہی وہ ہستی ہے، جس نے ارسطو دریافت کیا۔یہی وجہ تھی کہ یورپ کا وہ طبقہ ، جو ایویروس کی سوچ سے متاثر تھا، ایویروسٹ (Averroest) کہلایا۔ 

آج اگر اُسے ارسطو پر اتھارٹی کا درجہ دیا گیا ہے، تو غلط نہیں۔ابن رُشد کا کہنا ہے کہ’’ سچ کبھی بھی سچ کا مخالف نہیں ہوتا۔ فلسفی کائنات کے بارے میں جو سچ جان چکے ہیں، وہی سچائی ہے اور اسی سچائی کی تلقین اسلام بھی کرتا ہے۔اسی لیے اسلام اور فلسفہ ایک دوسرے کے مخالف نہیں ۔گو ، دونوں کے راستے الگ ہیں ،مگر منزل ایک ہی ہے۔‘‘ابن رُشدکا کہنا تھا کہ ’’وہ مسلمان دانش وَر یا اسکالرز، جو فلسفے کے مخالف ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مسلمان اپنے دین سے دُور ہورہے ہیں، دراصل بھٹکے ہوئے ہیں۔‘‘جب مَیں نے کتاب سے نظریں اُٹھا کر اپنے سامنے دیکھا، تو خود سے کہا’’یہی تو مسلم دنیا کی اجتماعی ذہنیت کی پس ماندگی کی اصل وجہ ہے۔‘‘؎آئینِ نو سے ڈرنا…طرز کہن پر اَڑنا…مشکل یہی کٹھن ہے…قوموں کی زندگی میں۔

تاریخِ ہسپانیہ کے کچھ کرداروں ، کہانیوں کو سُننا ہو،ماضی کے عظیم الشّان خلفا ءکی مورش تہذیب کا ورسیلز کو دیکھنا ہو یا پھر اپنے اسلاف کے کارناموں کو یاد کرنا ہو، تو ان کھنڈرات کو دیکھنے چلے جائیں جو مدینہ الزہرہ کے نام سے مشہور ہیں ۔ اس شہر کی بنیادیں رکھنےوالاجیالا ،شہہ زور اور وجیہہ شہزادہ، خلیفہ عبدالرحمٰن سوئم تھا، جو21 سال کی عُمر میںتخت نشیں ہوا۔ لوگ اس سے بہت خوش، بے پناہ محبت کرتے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ رعایا نے اسے بہت سے خطابات سے نوازا، جن میں سے نصرالدّین یا ناصر الدّین سب سے زیادہ مشہور ہوا۔912سے 961تک حکومت کرنے والے عبدالرحمٰن سوئم نے 25 برس میں مدینہ الزہرہ کی تعمیر مکمل کی۔ یہ اس وقت قرونِ و سطیٰ کا رنگ لیےقرطبہ کے مغربی مضافات کا علاقہ تھا۔یہ دَور، ہسپانیہ کی تاریخ کا بہترین دَورخیال کیاجاتا ہے،جب مملکت میں علم و ادب کا شہرہ تھا۔مقامی گوتھ اور رومن اسٹائل اور عربوں کے مروجّہ طریقوں کی آمیزش سے نئے رنگ و انداز فروغ پا رہے تھے۔ 

اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفق بے ثغور (آخری قسط)
مدینہ الزہرہ کا اندرونی منظر

موسیقی اور شاعری کا چرچا تھا، علم و فن کی بڑی پذیرائی تھی۔ شہر بسانے پر ڈھیروں ڈھیر پیسا خرچ ہوا۔چوں کہ شاہِ یونان سے خلیفہ کی گہری دوستی تھی ، تواس کے ماہر کاریگر اور سنگِ مر مر کے تحفے اُسے شاہ کی جانب سے ملے ۔قرطبہ کے اپنے کاریگر بھی کمال کے تھے۔سو ،اِس محل اور عمارات کے ستون ،فرش اور چوبی کندہ کاری دونوں ممالک کے کاریگروںکی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔کمروں میں فوّارے ہر دَم موتی بکھیرتے تھے، حمّاموں کی شان و شوکت اپنی جگہ تھی۔ شہر کا نام اس نے اپنی ایک کنیزکے نام پر رکھا ، جسے بعد میں اس نے اپنی ملکہ بنایا اور پھر اس کاسنگِ مر مر کا ایک مجسمہ بھی مرکزی دروازے پر آویزاںکردیا کہ ’’لو بھئی، خلقِ خدا تم بھی دیکھ لو ۔‘‘

تاہم، اس پیارو محبت کی داستان کے علاوہ بھی اس کی تعمیر کی بڑی وجہ یقیناً اُن جذبوں کی تشفّی تھی، جو طاقت وَر حکمرانوں کے دِلوں میں اپنی برتری اور طاقت کا رعب جمانے کی نفسیاتی خواہشات کی اسیر ہوتی ہے۔تاہم،عباسیوں کا نیا دارلخلافہ، بغداد جو طاقت کا نیا مرکز بن کر اُبھرا تھا،وہ اُسےبے چین و مضطرب رکھتا تھا۔

پھر اُسے ہجرت کا دُکھ بھی تھا کہ اپنے آباواجداد کے زمانوں کا وہ شان دار دمشق، اُس کی عظمت کا گہرا تاثر اُسےچین سے نہیں بیٹھنے دیتا تھا۔اس کا جی چاہتاکہ کچھ ویسا ہی اس نئے دیس میں بھی دیکھے۔یہاں وہ بہار اور خزاں کے دنوں میں ضرور قیام کرتا۔یہ دن فطرت کے حُسن سے مالا مال اور بڑے نشیلے سے ہوتے۔محل کی پشت پر جبلِ عروس کی سرسبز پہاڑیاں اور پست قامت جھاڑیاں دل لبھاتیں۔اسے وسعت دینے اور اس کی شان وشوکت بڑھانے میں الحکم ثانی کا بھی بڑا کردار ہے۔لیکن افسوس اس شہر کی عمر اتنی کم نکلی کہ اتنے ارمانوں اور اتنے کثیر سرمائے سے بنایا گیا یہ شہر امومی حکومت ختم ہوتے ہی ایک طرح سےتباہ ہوگیا۔ بربروں نے اِس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔

سفر تو زیادہ نہ تھا، یہی کوئی سات آٹھ کلومیٹر کا تھا،مگر راستے کے حُسن ودل کشی کے بڑھاوے میں حصّہ ڈالنے والے بزرگوں،عورتوں،چرند پرند سبھوں کا اپنا اپنا کردار تھا،جو بے اختیار توجّہ مائل کرتے تھے۔ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے، آبادی کم ہوتی گئی اورسرسبز و شاداب کھیتوں ، فطرت کا حُسن بڑھتا چلاگیا۔تاحدِ نظر ہریالیوں کا سلسلہ، اوپر چمکتا شفّاف آسمان، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ،کھیتوں میں کام کرتے لوگوں کو دیکھتے دیکھتے ٹیکسی مرکزی شاہ راہ چھوڑتے ہوئے نسبتاً چھوٹی سڑک پر آگئی۔اب آہستہ آہستہ چڑھائی شروع ہوگئی تھی۔

ایک بڑے گیٹ نے’’ خوش آمدید مدینہ الزہرا ‘‘کا مثردہ سنا یا ۔گیٹ کے اندر داخل ہوکر چاردیواری کے ساتھ ساتھ چلتے پارکنگ تک پہنچ گئے۔ یہ ایک طرح سےپہاڑی کی پشت پر تھا۔باہر نکل کر کتنی دیر تک ہم لوگ وہیں کھڑے اپنے قدموں میں بچھے کھنڈرات دیکھتے رہے۔پھر ایک دوسرے کو دیکھا اور بے اختیار ہی ہونٹوں سے نکلا۔’’اُف !کس قدر دل موہ لینے والا منظر ہے‘‘ سامنے قرطبہ شہر بکھرا ہوا تھا، پشت پر سیئرا مورینا کی پہاڑیاں سبزے سے ڈھکی تھیں،مِن و عَن اسلام آباد کے مناظر۔ان پہاڑیوں کی داستان بھی بڑی دل چسپ ہے کہ یہ بڑی بدوضع اور سیاہ تھیں۔

اُس پری وَش ،زہرہ عبدالرحمٰن سوم کی ملکہ کو اس کی بدصورتی بڑی کَھلتی تھی۔سو، ایک دن بولی ’’اِسے دیکھ کر تو مجھے وہ مثال یاد آتی ہے کہ پہلوئے لنگور میں حور ،خدا کی قدرت۔‘‘بس پھر کیا تھا، عبدالرحمٰن نے فوراًاِسے اکھاڑ پھینکنے کا حکم دیا ،مگر یہ مشکل تھا۔ سوچا بچار کےبعد حکم دیا کہ’’ اِسے پھل دار پیڑوں اور پھول ،بُوٹوں سے سجادو۔‘‘ اس طرح یہ انجیر ،بادام کے درختوں اور پھول دار بُوٹوں سے بھر گئیں، یوں محل کی شان بھی دوبالا ہوگئی۔

’’اب کیا کرنا ہے بیبیو …؟؟اُترائی دیکھ رہی ہو۔‘‘سیما نے متوجّہ کیا۔دراصل مدینہ الزہرہ تین حصّوں میں تعمیر ہواتھا،شالامار باغ کی طرح تین تختے کہہ لیں۔خیر، وہاں تعمیرات تو بہت مختصر ہیں،یہاں تو پورا شہر ہے۔چلو ،’’ہمّت مَرداں، مددِ خدا‘‘ پر عمل کرتے ہیں۔ٹکٹ لیا اور اندر داخل ہوئے۔بلندی والا حصّہ محلّات پر مشتمل تھا، درمیانہ باغات اور کھیتوں پر اورسب سے نچلے حصّے میں شہرتھا، جس میں انتظامیہ کے دفاتر ، کچہریاں،مساجد وغیرہ کا سلسلہ تھا۔سُورج کی چمکتی کرنوں میں جنوبی ڈھلانوں پر بکھرےکھنڈرات کےاس شہرکو اب ورلڈ ہیریٹیج نے اپنا لیا ہے۔

بہرحال، محکمہ آثارِ قدیمہ کو شاباش کہ ماضی کے اِس وَرثے کو کھود کھود کر نکالا اور برتنوں،پتھروں ،ستونوںاور دروبام سبھوں کو جھاڑ پونچھ کر تختوں کی تفصیلات سے سجا کر کمائی کا ذریعہ بنا دیا ۔مگر کیا کیا جائے کہ یہ سب ہسپانوی زبان میں تھے۔ یہاں سیکڑوں سنگِ مرمر کے فوّاروں میں بنے شیروں ،زرّافوں اور گھوڑوں کے منہ سے موتی نکلتے دیکھنا بڑا دل چسپ شغل تھا۔سائپرس اور پام کے درختوں اور ان کے گرد بکھرے بڑے ہالز اور باغات دیکھ دیکھ کر خوشی اور غم کی کیفیات میں ڈوبتے اُبھرتےرہے۔ خوشی ، عجائب خانہ دیکھنے کی اور غم،عظیم لوگوں کے نام و نشاں مٹنے کا۔

دارالعبدالرحمٰن کا Dar-al-Yand ،آرمی ہائوس کا ہال، جسے وزیر ہائوس بھی کہتے ہیں ، سب سے خوب صُورت حصّہ تھا۔جس کی سجاوٹ ، آرائش و زیبائش کچھ اس انداز سے ہوئی تھی کہ دیکھنے والے بس دیکھتے رہ جائیں۔ اسے ماہرِ آثارِ قدیمہ نے رِچ ہال(Rich Hall )کا نام دیا تھا۔اس کا ہر دوسرا کالم نیلے اور سُرخ ماربل کی آمیزش سے دل کش تاثر اُبھارتا ہے۔محرابوں کے پتھر اور اُن کی ڈیزائننگ بھی کمال کی ہے۔نیچے اُترنے کے لیے سیڑھیاں ہیں، جو کھدائی سے نکلنے والے پتھروں ہی سے بنائی گئی ہیں۔

جی تو چاہاکہ ہم بھی نیچےاُتر جائیں، مگر گِٹّے گوڈے تو مانگے تانگے کے نہیں تھے، اپنے ہی تھے اور وہ بھی بیمارشیمارتو ہم نے نہ اُترنے ہی میں عافیت جانی۔ہاں،آنکھوں نے جب اُس کندہ کاری اور دل نےوہاںکی خوش بُو محسوس کرنا چاہی تو دیواروں کو اُنگلیوں سے چُھوکر خُوب سراہااور اور…بالآخر ہوٹل واپسی کی راہ لی کہ اگلے روز وطن واپسی کی فلائٹ تھی اور ہمیںڈھیر ساری پیکنگ بھی کرنی تھی۔

یوں،ہم تین سہیلیاں پر دیس کے سیر سپاٹوں سے خُوب لُطف اندوز ہوکر ، سنہرے ماضی کی جھلکیاں دیکھ دیکھ کر اور کچھ کھٹی میٹھی یادوں کےحسین تحفے لیےخاصے بوجھل دل سے وطن واپس لَوٹ آئیں۔

تازہ ترین