• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھوٹے صوبے پنجاب سے کسی بھی دور میں مطمئن نہیں رہے، حالانکہ اکثر حکمرانوں کا تعلق چھوٹے صوبوں سے ہی رہا۔ یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ چھوٹے صوبے ہی کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا دور خیبر پختونخوا اور بلوچستان کیلئے انتہائی بدترین رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریز کی تربیت یافتہ سول وفوجی بیورو کریسی اور جاگیر دارانہ سوچ انگریز سے ورثے میں ملی، مخصوص طرز سیاست کی بدولت پنجاب میں کسی ایسے سیاستدان کی پرورش نہ ہوسکی جو چھوٹے صوبوں کے جمہوریت نواز اور قربانیوں کی طویل تاریخ و سیاسی بلوغت کے آسماں پر پہنچنے والے قدآور اور زیرک راہنمائوں کا مقابلہ کرسکے، لہٰذا پنجاب کے طبقاتی مفاد کا تقاضا تھا کہ وہ قوت کے حصول کیلئے طاقتور کے حلیف بنیں۔یہ بنگال تھا جس نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی، بعدازاں جب برطانوی دور میں انتخابات ہوئے تو یوپی، سی پی کے ساتھ یہ بنگال ہی تھا جس نے مسلم لیگ کو ووٹ دیا جبکہ دوسری طرف موجودہ پاکستان کے پنجاب سمیت کسی صوبے میں بھی مسلم لیگ کو کامیابی نہیں ملی تھی۔اسکے باوجود یہ پنجاب کی آڑ میں درپردہ قوتوں کا کھیل ہی تھا کہ بنگالیوں کو پاکستان سے علیحدہ ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس گھنائونے کھیل کا آغاز قیام پاکستان کےساتھ ہی ہوگیا تھا، پاکستان بننے کے صرف 4سال بعد 16اکتوبر1951کو وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل ہوا، اس قتل کے دس روز بعد 25اکتوبر 1951کو اُس وقت کی حکومت نے قتل کی تحقیقات کیلئے ایک کمیشن تشکیل دیدیاجو فیڈرل کورٹ کے جج جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں پنجاب کے مالیاتی کمشنر اختر حسین پر مشتمل تھا۔ یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس کمیشن کا دائرہ کار قتل کے محرکات کا پتہ چلانا نہیں بلکہ یہ معلوم کرنا تھا کہ لیاقت علی خان کے قتل کےموقع پر انتظامات کی کمی اور ناکامی کی ذمہ داری کس پر ہے ۔اس کمیشن نے اپنی رپورٹ 17 اگست 1952 کو شائع کی ،چونکہ قتل کے محرکات غیر متعلق تھے لہٰذا رپورٹ صرف پنجاب اور سرحد ( خیبرپختونخوا) کے پولیس افسران کی صفائیوں پر مشتمل تھی۔اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ روزاول سے کس باریک بینی سے اقتدارپر گرفت رکھنے کی خاطر شاطرانہ رموز و اسلوب بروئے کار لائے گئے ،یہی وجہ ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل سے لیکر محترمہ بے نظیر بھٹوکے قتل تک اصل محرکات آج تک سربستہ راز ہیں۔کیایہ سوالیہ نشان نہیں کہ ایک وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اتنی بے بس ہوجاتی ہیں کہ اپنے دور حکومت میں اپنے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل پراُن کی آنکھیں آنسو بہانے کیلئے تو آزاد ہوتی ہیں لیکن حقائق بتانے کیلئے لب پابند۔یہی بے بسی پھر صدر آصف زرداری کو بھی گھیر لیتی ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کے قتل کے محرکات اپنے 5سالہ دور میں بھی سامنے لانے کی جرات نہیں کرپاتے۔یہ سلسلہ جاری ہے اورخداجانے کب تک جاری رہیگا۔ جہاں یہ سب کچھ سو ل حکمرانوں کے ساتھ ہوتارہا،وہاں وہ سیاستدان جوملک میں حقیقی جمہوریت کے علمبردار اور اپنی قربانیوں واہلیت کے باعث عوام کے محبوب نظر تھے ،اُنہیں عوام کی نظرمیں معتوب بنانے کیلئے غداربنانے کا سلسلہ شروع ہواجو باچاخان،حسین شہیدسہروردی ،عبدالصمداچکزئی شہید ، محترمہ فاطمہ جناح ،ولی خان ،سردارعطااللہ مینگل اورخیر بخش مری سےہوتاہوا اب میاں نواز شریف تک آپہنچاہے۔اس دور کا انقلاب مگر یہ ہے کہ اب غداری کے الزامات لگانےوالوں کو سخت آزمائش کا سامنا ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ عہدِدوراں میں غداری کے الزمات کی زد میں جو سیاستدان آئے اُن تمام کا تعلق نہ صرف پنجاب سے ہے بلکہ وہ ماضی کی طرح کوتاہ نظر اور غیر مقبول نہیں ،یہ پنجاب کے مقبول ترین راہ نما ہیں،چونکہ پنجاب کے عوام یہ الزاما ت قبول کرنے کیلئے تیارنہیں ،اس لئے اب ان الزامات کا بڑی لے دے ہو رہی ہے۔ خوش آئندامر یہ ہے کہ پنجاب کے عوام یہ ادراک کرنے لگےہیں کہ ماضی میں کن مقاصد کیلئے چھوٹے صوبوں بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے لیڈروں کو غدار کہا گیا۔موجودہ دور جہاں مہنگائی سے لیکر ناقص طرزِحکمرانی سمیت ترقی معکوس کا تشویشناک مظاہر ہ دیکھ رہا ہےوہاں اس دور کے سامنے  پہلی مرتبہ چھوٹے صوبوں اور بڑے صوبے کے درمیان یکجہتی کی وہ فضا ہے،جس کیلئے قبل ازیں اصول پرست سیاستدانوں نے قید وبندکی صعوبتیں اورغداری کی تہمتیں توبرداشت کیں مگر خائنوں کے ڈاکٹرائن کو آشکارکرنے سے دستبردار نہیں ہوئے۔آج کاسوال مگر یہ ہے کہ ووٹ کی عزت اورصوبوں کےحقوق کی جوبات پی ڈی ایم کررہی ہے اس بات کی کیا ضمانت ہےکہ اقتدارمیں آنے پربڑی جماعتیں اس سلسلے میں حسب ِ ماضی مصلحت کا شکار نہیں ہونگی،کیا جملہ امور سے متعلق ایک عمرانی معاہدے کی ضرورت نہیں ؟؟

تازہ ترین