• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ پرویز مشرف کے اقتدار کا قصہ ہے، میں اُن دِنوں کراچی موجود تھا۔ اپنے ایک دوست کے گھر پہنچا کہ اُس کو ہمراہ لے جانا تھا۔ وقت طے تھا مگر انتظار کرنا پڑا۔ میرا دوست وقت کا پابند تھا مگر تاخیرکر رہا تھا۔ سامنے آیا تو تاخیر کی وجہ بھی سمجھ آگئی۔ اُس کی گردن میں اُس کا کوئی پونے سات برس کا بیٹا لٹکا تھا جو باپ سے بضد تھا کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا۔ یار! میں کام سے جارہا ہوں، آپ کو ساتھ لے کر کیسے جاؤں؟ ’’نہیں میں جاؤں گا‘‘۔ باپ کی گردن اُس نے مزید بھینچ لی۔ ’’اچھا! جب میں آفس میں کام سے چلا جاؤں گا تو آپ کہاں بیٹھو گے؟‘‘، ’’میں آپ کے ساتھ آفس چلا جاؤں گا‘‘۔ پٹ پٹ کرتی زبان سے جواب حاضر تھا، ’’اچھا چلیں میں انکل کے ساتھ بیٹھ جاؤں گا، اُن سے کہانی سن لوں گا‘‘۔ میری طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ ننھا فرشتہ بولا۔ میں اپنے دوست سے مخاطب ہوا کہ یار اپنے تیسرے دوست کو بھی ساتھ لے چلتے ہیں۔ ’’اب تو انکل بھی مان گئے، یار آپ بھی مان جاؤ‘‘، ٹھوڑی پر ہاتھ رکھے وہ اپنے باپ سے ضد پر اڑا ہوا تھا۔ اچھا میرے باپ، پھر میرا دوست مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا، ’’یار یہ ہے میرا یار، بچپن سے سوتا تک میرے پاس ہے‘‘، ’’ اب تو میرا بھی یار ہے‘‘ میں نے کہا، بچے نے خوشی سے میرا بھی ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’آپ کو کہانیاں آتی ہیں؟‘‘، ’’ہاں کوئی ایک دو تو آتی ہوں گی‘‘، ’’بس اتنی کم، مجھے تو بابا روز نئی کہانی سناتے ہیں، چلیے آپ بھی اُن سے یاد کر لینا، پر جو ابھی یاد ہیں وہ مجھے سنا دیں‘‘۔ واپسی پر میں نے گاڑی ایک کھلونوں کی دکان پر رُکوا دی۔ ’’کیوں یار؟‘‘ میرا دوست مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’آؤ تو سہی!‘‘، ’’پر تم نے کھلونوں کی دکان سے کیا خریدنا ہے؟‘‘، ’’اپنے دوست کے لئے کھلونا خریدنا ہے‘‘، ’’اوہ چھوڑو یار، تکلف مت کرو‘‘، ’’تکلف کیسا؟ دوست بن گیا ہے میرا، پکا دوست، کیوں بن گئے ہو نہ میرے پکے دوست؟‘‘، ’’ہاں بن تو گیا ہوں پر بابا کہتے ہے کسی سے کوئی چیز نہیں لیتے‘‘۔ اب ہم کھلونوں کی دکان میں داخل ہو چکے تھے۔ ’’یار کوئی کھلونا پسند کرلو‘‘۔ اُس نے پیچھے ہٹتے ہوئے انکار میں سر ہلایا مگر ہاتھ کے اشارے سے ایک ہیلی کاپٹر کی طرف اشارہ کر دیا۔ ’’بھائی یہ ہیلی کاپٹر دے دو‘‘۔ میرا دوست سمجھ گیا کہ اُس نے اشارہ کیا ہے۔ ’’بہت چالاک ہو انکل کو اشارہ کیا ہے‘‘۔ وہ تین بار زور سے بولا! ’’نہیں، نہیں، نہیں‘‘ اور ہنستے ہوئے اپنے باپ سے لپٹ گیا، ہم دونوں بھی مسکرانے لگے۔ چند روز بعد میں لاہور واپس چلا گیا۔

کراچی میں اُن دنوں دہشت گردی اپنے عروج پر تھی۔ ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ میرے دوست کی تصویر سامنے آگئی، وہ دہشت گردی کا شکار بن چکا تھا۔ کوئی دو ہفتے بعد کراچی جانا ہوا تو سیدھا اپنے مقتول دوست کے گھر تعزیت کے لئے جا پہنچا، ابھی بیٹھا ہی تھا تو اس کا بیٹا آگیا۔ چند لمحے مجھے دیکھتا رہا، پھر بولا، ’’انکل آپ بابا سے ملنے آئے ہیں؟ انکل میرے بابا مر گئے ہیں۔ اُن کو کسی نے مار دیا ہے، انکل آپ تو میرے بابا کے دوست ہیں نا؟ کیا میرے بابا گندے آدمی تھے؟ نہیں نا؟ وہ تو کسی سے لڑتے بھی نہیں تھے۔ یاد ہے، اُس دن ٹریفک پولیس انکل نے ہماری گاڑی دوسری جگہ کھڑی کرادی تھی۔ بابا نے بالکل بھی لڑائی نہیں کی تھی۔ پھر کسی نے میرے بابا کو کیوں مار دیا؟‘‘ معصوم ذہن میں پلنے والے سوال زبان پر جاری تھے۔ اچانک وہ مڑا اور ڈرائنگ روم سے چلا گیا۔ لمحوں بعد واپسی ہوئی تو اُس کے ہاتھ میں اُس دن والا ہیلی کاپٹر تھا۔ ’’انکل آپ یہ واپس لے لیں‘‘، ’’کیوں بیٹا؟ انکل یہ خراب ہو گیا ہے‘‘، اُس نے باہر نکلی ہوئی ایک تار کی طرف اشارہ کیا۔ اُس دن بابا نے کہا تھا کہ ’’واپس آکر ٹھیک کر دوں گا، اب بابا تو مر گئے ہیں نا، ٹھیک کون کرے گا؟ اور اب ہم ماموں کے گھر رہیں گے، وہاں یہ اُڑ کر کسی اور انکل کے گھر چلا گیا تو وہ انکل میری پٹائی کر دیں گے کہ ہمارے گھر کیوں آیا، مجھے اب پٹائی سے کون بچائے گا؟ میرے بابا تو مجھے ماما کی پٹائی سے بھی بچا لیتے تھے، پر اب وہ مر گئے ہیں پھر مجھے اب کھیلنا بھی نہیں‘‘۔’’کیوں نہیں کھیلنا آپ کو؟‘‘،’’ مجھے اپنی ماما اور چھوٹی بہن کا خیال جو رکھنا ہے۔ میری بہن تو بس اُسی گڑیا سے کھیلتی رہتی ہے جو بابا نے اُسے دلائی تھی کہ بابا اُس کے لئے گڈا بھی لا کر دیں گے، اُسے نہیں پتا کہ بابا مر گئے ہیں، وہ سمجھتی ہے کہ لاہور گئے ہیں، اُس کے لئے گڈا لینے۔ پھر ماما بھی ہر وقت روتی رہتی ہیں۔ میں نے ماما کو بتایا بھی ہے کہ بابا مجھے شیر کہتے تھے اور میں اب بڑا بھی ہو گیا ہوں پر ماما پھر اور رونے لگتی ہیں۔‘‘ یہ سارا منظر اُس وقت دوبارہ میری آنکھوں کے سامنے گھومگیا، جب پشاور دھماکے کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں، ایک معصوم بچہ جس کی ٹھوڑی پر پٹی، چہرے پر خون کے دھبوں کے نشان، آنکھوں میں آنسو۔ ہم اپنے بچوں کی ذہنی نشوونما یہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے باپ کو مقتول دیکھتے ہیں یا خود دھماکے کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ مانا یہ سب کرنے والے یزیدیت کے پیروکار ہیں مگر اس سب کو روکنے کے ذمہ دارکون ہیں؟ اب آپ بھی حقیقی معنوں میں ذمہ داری ادا کریں، اپنے بچوں کو سامنے لے کر بیٹھ جائیں اور فیصلہ کریں۔

تازہ ترین