• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے میں جب دنیا بھر میں جشن عید میلاد النبیﷺ کی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں، فرانسیسی صدر کے پیغمبر اسلامؐ کے بارے میںگستاخانہ بیانات نے مسلمانوں کی خوشیاں ماند کردیں،اُن کے جذبات شدید مجروح ہوئے اور اس بار عید میلاد النبیﷺ کے جلوسوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں فرانسیسی صدر کے خلاف بھی احتجاجی جلوس نکالے گئے جس سے دنیا کو یہ پیغام ملا کہ مسلمانوں کو اپنے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کسی صورت قبول نہیں۔

فرانس میں پیش آنے والے توہین رسالتؐ کے واقعات اور آزادیٔ اظہار رائے کی آڑ میں فرانسیسی صدر کی گستاخانہ خاکوں کی حوصلہ افزائی مسلم اُمہ سے نفرت کی علامت بن چکی ہے جس پر دنیا بھر کے مسلمان آگ بگولہ ہیں جبکہ فرانسیسی صدر کے بیانات اور توہین رسالتؐ کے واقعات پر مسلمانوں کا ردِعمل سامنے آرہا ہے جس سے فرانس میں صورتحال روز بروز گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔ کشیدہ صورتحال اُس وقت پیدا ہوئی جب دو ماہ قبل فرانسیسی میگزین چارلی ایبڈو، جو ماضی میں بھی گستاخانہ خاکے شائع کرتا رہا ہے، نے پیغمبر اسلامؐ کے خاکے دوبارہ شائع کئے جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح و مشتعل ہوئے۔ ردِعمل کے طور پر پیرس میں مقیم منڈی بہائو الدین سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ پاکستانی نوجوان نے میگزین کے سابقہ دفتر کے باہر کھڑے دو لوگوں کو چاقو کے وار کرکے شدید زخمی کردیا اور اپنی گرفتاری دے دی۔ اِسی طرح ایک اور واقعہ میں پیرس کے مضافات میں واقع ہائی اسکول کے ٹیچر سیموئیل پیٹی نے اپنے کمرہ جماعت میں موجود مسلمان بچوں کو باہر جانے کیلئے کو کہا اور غیر مسلم بچوں کو چارلی ایبڈو میں چھپنے والے خاکے دکھاتے ہوئے پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں گستاخانہ جملے ادا کئے۔ کلاس سے نکالے گئے مسلمان طلباء میں چیچن خاندان کا ایک 18 سالہ نوجوان عبداللہ بھی شامل تھا، اُسے جب اپنے ساتھی طلباء سے ٹیچر کی گستاخانہ حرکتوں کا علم ہوا تو نوجوان نے اگلے ہی روز اسکول کے باہر مذکورہ ٹیچر پر چاقو سے حملہ کرکے اُس کا سر تن سے جدا کردیا اور خود پولیس فائرنگ سے شدید زخمی ہوگیا۔ بعد ازاں فرانسیسی صدر میکرون نے ملعون ٹیچر کو ’’قومی ہیرو‘‘ قرار دیتے ہوئے اُسے قومی ایوارڈ سے نوازنے کا اعلان کیا اور گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو آزادیٔ اظہار رائے قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم خاکے بنانا نہیں چھوڑیں گے اور اب اِن خاکوں کو عوامی مقامات پر لگایا جائے گا‘‘۔ ترکی کے صدر طیب اردوان نے اپنے ردعمل میں فرانسیسی صدر کو مذاہب کو آپس میں لڑوانے والا قرار دیتے ہوئے اُنہیں دماغی معائنے کا مشورہ دیا اور فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا جبکہ پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک کے سربراہان نے بھی فرانسیسی صدر کے بیانات کی شدید مذمت کی اور کہا کہ آزادیٔ اظہار رائے کے نام پر حضور اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کسی صورت قبول نہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ فرانسیسی حکومت اِن واقعات کے بعد گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر پابندی عائد کرتی اور آئندہ اس طرح کے واقعات کا سدِباب کرتی مگر فرانسیسی صدر کے اسلام مخالف رویے سے شدت پسندوں اور اسلاموفوبیا کی حوصلہ افزائی ہوئی جس سے مسلمانوں میں اشتعال پھیلا اور گزشتہ دنوں فرانس کے شہر نیس میں پیش آنے والے واقعہ میں چرچ کے نگران سمیت 3 افراد ہلاک ہوگئے۔ اب اس طرح کے واقعات فرانس کے علاوہ دیگر یورپی ممالک میں بھی رونما ہورہے ہیں۔ گزشتہ روز آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں دہشت گردی کے واقعہ میں 7 افراد کی ہلاکت اسی سلسلے کی کڑی بتائی جاتی ہے۔فرانس، یورپ میں مسلم اقلیتی آبادی کا سب سے بڑا ملک ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں 70 لاکھ سے زائد مسلمان مقیم ہیں۔ فرانس یورپ کا وہ پہلا ملک ہے جس نے سب سے پہلے مسلم خواتین پر عوامی مقامات پر چہرے پر نقاب کی پابندی عائد کی تھی۔ فرانس میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کی بڑی وجہ فرانسیسی جریدے کا پیغمبر اسلامؐ کے خلاف گستاخانہ خاکوں کا شائع کرنا اور فرانسیسی صدر کا اِسے آزادی اظہار رائے قرار دے کر حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اگر فرانسیسی صدر اور حکومت متنازع میگزین چارلی ایبڈو میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور اسکول ٹیچر کے توہین آمیز حرکات کا سدِباب کرتی تو آج حالات اتنے خراب نہ ہوتے جس نے فرانس میں مذہبی ہم آہنگی کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔

مغرب ہمیشہ مسلم دہشت گردی کی بات کرتا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ مغرب کی اسلام دشمن پالیسیاں ہی دہشت گردی کو جنم دے رہی ہیں۔ فرانس میں پیش آنے والا واقعہ اپنی نوعیت پہلا واقعہ نہیں، مغربی میڈیا جب بھی حضور اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوگا، اِس طرح کے واقعات پیش آتے رہیں گے کیونکہ کوئی بھی مسلمان خواہ وہ کتنا ہی لبرل کیوں نہ ہو، شاید اپنے والدین کی بے عزتی برداشت کرلے مگر نبی کریمﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔ ناموس رسالتؐ کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض اور ہر شے پر مقدم ہے اور حضور اکرمﷺ کی محبت ہر مسلمان کا سرمایہ ہے جو اُنہیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔ موجودہ صورتحال میں او آئی سی کا کردار قابلِ مذمت ہے جس نے اس اہم معاملے پر چپ سادھ رکھی ہے۔ اس سے پہلے کہ حالات مزید خراب ہوں، مسلم رہنمائوں کو چاہئے کہ وہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے اسلاموفوبیا اور مغرب کے اسلام مخالف رویئے کے خلاف Comprehensive لائحہ عمل اختیار کریں اور کسی بھی مذہب یا پیغمبر کی توہین کو بین الاقوامی جرم قرار دیا جائے تاکہ کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کی دل آزاری نہ ہو۔

تازہ ترین