• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ اپنے چار سالہ بیٹے کی انگلی تھام کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد روانہ ہوا تو اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ اپنے معصوم بیٹے کی زندگی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ اُسے کئی دن سے دھمکیاں مل رہی تھیں کہ وہ قتل کر دیا جائے گا لیکن وہ ان دھمکیوں کو نظر انداز کرتا رہا۔ دوستوں اور ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ احتیاط کرے اور کم از کم اپنے بچوں کو ساتھ لے کر نماز پڑھنے مسجد نہ جایا کرے لیکن اس نے ایک قہقہے میں یہ مشورہ اڑا دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ایک چار سالہ بچہ اپنے باپ کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد جانے کی ضد کرے تو کیا باپ یہ کہہ کر بچے کو مسجد نہ لے کر جائے کہ نہیں نہیں مسجد نہیں جاتے وہاں طالبان نمازیوں کو قتل کر دیتے ہیں؟ یہ سن کر اس کے ساتھی چپ ہو جاتے اور پھر ایک دن وہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنے چار سالہ بچے کو گود میں اٹھائے مسجد سے باہر آیا تو اس پر گولیوں کی بوچھاڑ ہو گئی۔ کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 254 سے عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار صادق زمان خٹک کو مسجد کے دروازے پر ان کے چار سالہ معصوم بیٹے کے ہمراہ شہید کر دیا گیا۔ اگلے دن اسی کراچی شہر میں متحدہ قومی موومنٹ کے عزیز آباد میں دفتر کے سامنے بم دھماکے کئے گئے جن میں ایک بچے سمیت کئی بے گناہ افراد مارے گئے۔ ان حملوں کے بعد اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ کے پاس الیکشن 2013ء کا بائیکاٹ کرنے کا جواز موجود ہے کیونکہ طالبان کی طرف سے ان دو جماعتوں کے علاوہ پیپلز پارٹی پر علی الاعلان حملے کئے جا رہے ہیں اور نگران حکومت ان حملوں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ اگر یہ تین جماعتیں الیکشن کا بائیکاٹ کر دیں تو پھر اس الیکشن کی کیا اہمیت رہ جائے گی؟ لیکن یہ تینوں جماعتیں الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کا اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، جے یو آئی اور جماعت اسلامی سے نہیں بلکہ طالبان سے ہے۔ الیکشن کے بائیکاٹ کا مطلب طالبان کی فتح ہو گی لہٰذا یہ تین جماعتیں طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اے این پی، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی طرف سے الیکشن کے بائیکاٹ نہ کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان کے حملوں نے ان تینوں کو مظلوم بنا دیا ہے۔ یہ تینوں جماعتیں پچھلے پانچ سال تک مخلوط حکومت میں شامل تھیں اور ان کا زیادہ وقت آپس کی لڑائیوں میں گزرا۔ جب تک طالبان نے ان جماعتوں کی ریلیوں اور انتخابی دفاتر پر حملے شروع نہیں کئے تھے ان جماعتوں کو کافی عوامی تنقید کا سامنا تھا لیکن جب طالبان کے حملے شروع ہوئے تو صورتحال بدلنے لگی۔
پچھلے چند ہفتوں میں مجھے کراچی، سکھر، لاڑکانہ، پشاور، مردان، لوئر دیر، قبائلی علاقوں، لسبیلہ، خضدار، کوئٹہ، لاہور، راولپنڈی، جہلم، سرگودھا اور گوجرانوالہ سمیت کئی علاقوں میں انتخابی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھنے اور گلیوں بازاروں میں عام لوگوں سے بات چیت کا موقع ملا ہے۔ چاروں صوبوں کی انتخابی صورتحال ایک دوسرے سے مختلف ہے اور اس میں تیزی سے تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ ایک ماہ پہلے تک سندھ میں پیپلز پارٹی کو اپنے ہی کارکنوں اور حامیوں کی ناراضگی کا سامنا تھا۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے مرحلے پر اتنے اختلافات ہوئے کہ آصف علی زرداری کے لئے لاڑکانہ سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا جہاں شاہد بھٹو نے بغاوت کر دی تھی۔ جیسے ہی طالبان حملے اور دھمکیاں شروع ہوئے توپیپلز پارٹی کے جیالے واپس آنے لگے۔ ابھی بھی لاڑکانہ سمیت سندھ کے کئی شہروں میں پیپلز پارٹی کو پہلی دفعہ مسلم لیگ فنکشنل اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے سخت مقابلے کا سامنا ہے لیکن سندھ میں تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی بہت کمزور ہے۔ طالبان کی مہربانی سے سندھ کے لوگ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ کارکردگی کو بھولنے لگے ہیں اور گیارہ مئی کو تیر پر ٹھپہ لگانے کی تیاریوں میں ہیں۔ گیارہ مئی کو پیپلز پارٹی کو لاڑکانہ سمیت کچھ حلقوں میں سخت مزاحمت کا سامنا ہو گا۔ اس مرتبہ پیپلز پارٹی کی مخالفت میں ڈالے جانیوالے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے لیکن کئی حلقوں میں فنکشنل لیگ، مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی اور تحریک انصاف میں ایڈجسٹمنٹ نہ ہونے کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ملے گا اور پیپلز پارٹی ایک دفعہ پھر سندھ میں ا کثریت حاصل کر سکتی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک صوبہ خیبر پختونخوا میں اے این پی کے خلاف بہت بے چینی پائی جاتی تھی اور اے این پی کے کارکن اپنی قیادت سے سخت ناراض تھے۔ پھر طالبان کے حملے شروع ہوئے اور اے این پی مظلوم بن گئی۔ اگر اے این پی پر حملے نہ ہوتے تو الیکشن 2013ء میں بلور خاندان کے لئے کوئی نشست جیتنا بہت مشکل ہوتا لیکن اب پشاور کے حلقہ این اے ون میں حاجی غلام احمد بلور کو شکست دینا آسان نہیں۔ اس حلقے میں عمران خان بھی موجود ہیں اور گیارہ مئی کو انہیں پتہ چلے گا کہ طالبان کے حملوں نے بلور کو کمزور نہیں مضبوط کیا ہے۔ بلوچستان کی صورتحال بالکل مختلف ہے۔ یہاں پر مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ پر حملے ہو رہے ہیں۔ جے یو آئی کے ایک جلسے پر بھی حملہ ہوا۔ بلوچستان میں مختلف جماعتوں پر حملے کی وجوہات مختلف ہیں۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما سردار ثناء اللہ زہری نے بی این پی مینگل کے ساتھ مخاصمت کی وجہ سے مسلم لیگ (ق) کے نصیر مینگل کے ساتھ غیر اعلانیہ اتحاد کر رکھا ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے اور بھائی کے قتل کے مقدمے میں اختر مینگل کو نامزد کر کے اپنی پارٹی کی مرکزی قیادت کے لئے کافی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ دوسری طرف بی این پی مینگل کے رہنما عبدالرؤف مینگل نے خضدار میں اپنے گھر پر راکٹ حملے کا الزام سردار ثناء اللہ زہری پر لگا دیا ہے۔ بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی میں اتحاد نہیں ہو سکا۔ نیشنل پارٹی نے جے یو آئی اور کچھ دیگر جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے اور بی این پی مینگل کے خلاف امیدوار کھڑے کر دیئے ہیں۔ بی این پی مینگل کو ایک طرف مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کی مخالفت کا سامنا ہے دوسری طرف نیشنل پارٹی کی مخالفت کا سامنا ہے اور تیسری طرف بلوچستان عسکریت پسند ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ بھی ان کے سخت مخالف ہیں۔ عمران خان نے بلوچستان میں کچھ جلسے ضرور کئے ہیں لیکن ان کے حامی یہ نہیں جانتے کہ بلوچستان کے کئی حلقوں میں تحریک انصاف نے اپنے امیدوار ہی کھڑے نہیں کئے۔ تحریک انصاف پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ایک بڑی طاقت بن کر ابھری ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں بلکہ تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔ پچھلے چند دنوں میں سیاسی صورتحال تیزی سے بدلی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر پیپلز پارٹی کی طرف سے شہباز شریف کے خلاف چلنے والے اشتہاروں کا فائدہ تحریک انصاف کو مل رہا ہے۔ جو بھی مسلم لیگ (ن) سے ٹوٹتا ہے وہ پیپلز پارٹی نہیں جاتا بلکہ تحریک انصاف کے پاس آتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے عمران خان کے خلاف بیانات نے بھی خان صاحب کی مقبولیت میں مزید اضافہ کیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ لیکشن 2013ء سے پہلے سامنے آنے والے اکثر سروے اور تجزیئے غلط ثابت ہو جائیں گے۔ عمران خان اپنے مخالفین کی توقعات سے بہت زیادہ نشستیں حاصل کریں گے۔ پنجاب کے کئی حلقوں میں دائیں بازو کے ووٹ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں تقسیم ہونے کا فائدہ پیپلز پارٹی کو پہنچ سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کو نظر انداز کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے کیونکہ یہ دونوں جماعتیں خود کو اگلی حکومت سمجھ رہی ہیں۔ حکومت میں جو بھی آئے گا وہ یہ مت سمجھے کہ طالبان نے انتخابی مہم میں جن جماعتوں پر حملے نہیں کئے وہ بعد میں بھی محفوظ رہیں گی۔ طالبان الیکشن کے بعد انہیں کافی سرپرائز دیں گے۔ طالبان کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور اے این پی جو سرپرائز دے گی وہ آپ کو گیارہ مئی کو پتہ چل جائے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ طالبان ان جماعتوں کے قاتل بھی ہیں اور محسن بھی ہیں۔
تازہ ترین