نصیحت کرنے والے جو اتفاق سے بے روزگاری کے آلام و مصائب سے قطعا نا آشنا ہوتے ہیں ہمیشہ یہی کہا کرتے ہیں کہ آج کل کے نوجوانوں میں آرام طلبی ایسی آگئی ہے کہ ہاتھ پاؤں ہلانے کو دل ہی نہیں چاہتا۔ بس وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ گھر پر پڑے ہوئے چارپائی کے بان توڑا کریں اور روپے کی بارش ہوا کرے۔ ان ناصح بزرگوں سے کون کہے کہ جناب والا یہ سب کچھ صرف اس لئے ہے کہ آپ کا سایہ ہم کمبختوں کے سر پر ہنوز قائم ہے حالاں کہ آج کل عمر طبیعی پچاس پچپن سال ہے یعنی پچپن سال کی پنشن پاتے ہی انسان کو مر جانا چاہیے۔
یعنی یہ زبردستی تو ملاحظہ فرمائیے کہ دہری دہری عمر طبیعی پانے والے بزرگ مرنا تو بھول جاتے ہیں بس یہ یاد رہ جاتا ہے کہ اپنی نازل کی ہوئی مصیبتوں پر بیکار نوجوانوں کو دن رات لعنت ملامت کیا کریں ، حالانکہ قصور سب ان ہی کا ہے ، یہی نوجوان جب بچے تھے تو قبرستان کا راستہ بھول جانے والے بزرگوں نے ان بیچاروں کو پڑھانا شروع کیا تھا اور تمام زندگی زبردستی پڑھاتے رہے، یہاں تک کہ پڑھانے والے تو قبر میں پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئے اور پڑھنے والے ایک آدھ درجن بچوں کے باپ بن گئے اب ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنے بچوں اور باپ دادا سب کا پیٹ پالو تو بیچارے کہاں سے پالیں ، آرام طلب بنا دینے والے آرام طلبی کا طعنہ دیتے ہوئے کس قدر اچھے معلوم ہوتے ہیں۔
بیکار کر دینے والے بیکاری پر لعنت ملامت کرتے ہوئے کیسے بھلے لگتے ہیں ، ان ناصحوں سے کوئی پوچھے کہ اگر آپ کو اپنی اولاد کے بےکار ہونے کی فکر تھی تو آپ نے اس کو درزی کیوں نہ بنایا ، بڑھئی کیوں نہ بنایا ، لوہار کیوں نہ ہونے دیا ، جوتا بنانا کیوں نہ سکھایا اور تعلیم شروع کرانے سے قبل گلا گھونٹ کر کیوں نہ مار ڈالا ، پہلے تو تمام زندگی بے کار ضائع کی ، اسکول اور کالج کی لاٹ صاحبانہ زندگی بسر کرائی ، سوٹ ، بوٹ کا عادی بنایا اور اس مغالطے میں مبتلا رکھا کہ آنے والا دور موجودہ دور سے زیادہ زرین اور خوشگوار ہے تو اب یہ شکوہ سنجیاں کیا معنی رکھتی ہیں اور تمام دنیا کا تو خیر جو کچھ بھی حال ہو لیکن ہمارایہ حال ہے کہ یہاں بیکاری کے سب اس طرح عادی ہو گئے ہیں کہ گویا انسان کا مقصدِ حیات یہی بیکاری ہے، جس میں سب مبتلا ہیں۔
پڑھے لکھے بھی دو کوڑی کے اور جاہل بھی دو کوڑی کے بلکہ جو بیچارے پیدائشی یعنی خاندانی جاہل ہیں ان کی حالت پڑھے لکھوں سے بدرجہا بہتر ہے ، اس لئے کہ وہ محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے متعلقین کا پیٹ پال لیتے ہیں اور پڑھے لکھوں کا پیٹ ان کے متعلقین بھرتے ہیں۔ اس وقت بیکاری کا عالم یہ ہے کہ کسی شہر میں دیکھ لیجیے ، بہت سے محلے کے محلے ایسے نکلیں گے، جہاں آپ کی دعا سے سب خودمختار یعنی آزاد ہوں گے ، کوئی کسی کا نوکر چاکر نہیں ، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ پھر کھاتے کہاں سے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ بھی دنیا کے تمام کام چھوڑ کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں اور دیکھئے کہ خدا کھانے کو دیتا ہے یا نہیں؟
پہلے آپ جائداد پر ہاتھ صاف کریں گے پھر بیوی کے زیور کی باری آئے گی پھر کپڑوں اور برتنوں پر نوبت پہنچے گی ، مختصر یہ کہ خدا، باپ دادا کی کمائی ہوئی دولت اور جمع کی ہوئی گھرہستی کو رکھے ، بیوی کے لائے ہوئے زیور کو رکھے اور ان سب کو کوڑیوں کے مول خریدنے والوں کو رکھے ، بہرحال آپ انشاء اللہ اچھے سے اچھا کھائیں گے اور جس قدر اچھی زندگی آپ کی گزرے کی وہ تو ان نوکر چاکر قسم کے برسرِ کار لوگوں نے خواب میں بھی نہیں دیکھی ہوگی۔
’’شوکت تھانوی کی کتاب بیکاری"بحرِ تبسم"سے اقتباس‘‘
تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:
زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میںآپ اپنےتلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔
ہمارا پتا ہے:
’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔