• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ را‘‘ اور داعش ایک ہی صفحہ پر ہیں۔ جبکہ افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس بھی ان کے ساتھ اور سہولت کار ہے۔ 24اکتوبر کو کابل کے تعلیمی ادارے پر حملے کی ذمہ داری داعش خراسان نے قبول کی ہے۔ مذکورہ تعلیمی ادارے پر کئے گئے حملے میں30سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 70سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ جن کی عمریں 16سے 25سال کے درمیان تھیں۔ واضح رہے کہ اس تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم نوجوانوں کا تعلق اہل تشیع مسلک سے ہے۔ اسی طرح پشاور میں اہلِ سنت (دیوبند) کے مدرسہ میں بھی بم دھماکہ کیا گیا۔ جس میں 8افراد جاں بحق جبکہ 90سے زائد زخمی ہوئے۔ ان دونوں واقعات میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کابل میں دہشت گرد حملہ اہل تشیع کے تعلیمی ادارے جبکہ پشاور بم دھماکہ اہل سنت (دیو بند)کے مدرسہ میں کیا گیا۔ سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ دو مسالک کے نوجوانوں اور بچوں کے تعلیمی اداروں میں دہشت گرد کارروائیوں کا کیا مقصد ہے۔ نیز یہ کہ ان کارروائیوں کے پیچھے ایک جیسی سوچ کارفرما ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اجیت دوول نے ان حملوں سے ایک دن قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ ’’ یہ ضروری نہیں ہوگا کہ بھارت اپنی سرزمین پر لڑے۔ بھارت ہر اس جگہ لڑے گا جہاں سے خطرے کا امکان ہوگا۔ بھارت اپنی سرزمین کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی لڑے گا اور کارروائی کرے گا‘‘۔ کابل میں کے تعلیمی ادارے پر دہشت گرد حملے کے بعد داعش کی طرف سےذمہ داری قبول کرنا، اس بات کا اشارہ ہے کہ وہاں طالبان مخالف قوتیں موجود ہیں اور اگر طالبان کی حکومت تشکیل پاتی ہے تو ان کا بھرپور مقابلہ کیا جائے گا۔ دوسری طرف پشاور کے مدرسے میں بم دھماکہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی جو ایک اور ثبوت ہے کہ اس دھماکے میں ’’ را‘‘ براہ راست ملوث ہے۔ پشاور دھماکے کے متعدد پہلو ہیں۔ جن میں ایک یہ بھی ہے کہ ’’را‘‘ کی اس کارروائی سے پاک آرمی کی ناکامی ظاہر کی جائے۔ کیونکہ پاک آرمی کی کچھ توجہ ملک کی داخلی سیاست کی طرف مبذول ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر کابل کے تعلیمی ادارے پر حملے کے رد عمل کے طور پر پشاور کےمدرسے میں دھماکہ کیا گیا۔ اس کارروائی کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات شروع کرائے جا سکیں۔ جس کے لئے را ایک عرصے سے کوشاں ہے۔ لیکن پاکستان کے باشعور عوام نے بھارت کی اس مذموم کوشش کو ہمیشہ ناکام بنایا ہےاور اسی مذہبی ہم آہنگی کی بدولت بھارت اپنی اس ناپاک کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس کے علاوہ پاک فوج کی ناکامی ظاہر کرنے کی بھارتی کوشش بھی نہایت احمقانہ ہے۔ دنیا اس بات کی معترف ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل اور مشکل جنگ لڑی ہےاور اللہ تعالیٰ کی مدد سے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں مثالی کامیابی حاصل کی۔ میں کئی بار اپنی تحریروں میں واضح طور پر بھارت کی طرف سے دہشت گردوں کی سرپرستی کا ذکر کر چکا ہوںاور دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مسلم دشمنی میں کسی بھی حد تک جانے میں دریغ نہیں کرتے۔ وہ آر ایس ایس جیسی دہشت گرد تنظیم کے تا حیات رکن ہیں۔ اس تنظیم کا منشور ہی یہ ہے کہ جس طرح بھی ہو ہندوتوا کو بڑھاوا دیا جائے۔ مسلمانوں کو ہر طرح سے کمزور کیاجائے ان کا جانی و مالی نقصان کیا جائے۔

حکمران جماعت بی جے پی بھی اسی منشور پر عمل پیرا ہے۔ اس اضافے کے ساتھ کہ خطے میں بھارتی بالا دستی قائم کی جائے جس کے لئےبین الاقوامی قوانین،سرحدی قوانین اور انسانی حقوق کو پامال کرنے سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس موجود ہیں جن میں بھارت کے 44بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی اعانت کی تفصیلات درج ہیں۔ بھارت کے کیرالہ اور کرناٹک میں بڑے دہشت گرد نیٹ ورک کی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ جن کو بھارتی حکومت ’’را‘‘ کے ذریعے تمام سہولتیں فراہم کر رہی ہے۔ اس دہشت گر نیٹ ورک کو بھارت پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کروانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ را ‘‘اور ’’داعش‘‘ مل کر پاکستان اور دیگر پڑوسی ممالک میں دہشتگردی کی وارداتیں کرتی ہیں۔ بھارت کی یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان میں بد امنی ہو۔ اسی طرح وہ افغانستان میں بھی امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ بھارت نہیں چاہتا کہ افغانستان میں جاری امن کوششیں اور امن معاہدہ کامیاب ہو۔ داعش اور این ڈی ایس بھی طالبان کے خلاف ہیں۔ اس لئےیہ تینوں مل کر افغانستان میں امن کے عمل روکنے کے در پے ہیں۔ بلوچستان اور کے پی میں سیکورٹی فورسز پر حملوں میں بھی یہ ملوث ہیں۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ افغان حکومت کی جانب سے کئی بار وعدوں کے باوجود افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں کو روکنے کے لئے اب تک عملی اقدامات سامنے نہیں آئے۔ اگر دنیا واقعی اس خطے میں امن کی خواہاں ہے تو بھارت کو دہشت گرد ملک ڈکلیئر کرے اور اس کے خلاف تجارتی و اقتصادی پابندیاں لگا کر سفارتی تعلقات پر از سرنو غور کرے۔ تمام ثبوت موجود ہیں تو اقوام متحدہ اور اقوام عالم کو مزید کس چیز کا انتظار ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تمام تر ریاستی قوانین اور انسانی حقوق کی بد ترین پامالی تو دنیا کے سامنے ہے۔ ان تمام حقائق سے دنیا کی مجرمانہ چشم پوشی کے نتائج کسی بھی وقت بھیانک بھونچال کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور تمام عالمی طاقتوں کو اس پر فوری غور کرنا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین