• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعر: شاداب ؔ صدّیقی

صفحات: 240،قیمت: 600 روپے

ناشر: بزمِ شاداب،اے-72،بلاک ایچ، نارتھ ناظم آباد،کراچی۔

شاعری کے لیے اگر احساسات، مشاہدات اور وارداتِ قلبی جیسے ناگُزیر عوامل موجود نہ ہوں، تو کاغذ پر تحریر کیے جانے والے الفاظ جذب اور تاثیر سے خالی ہوں گے۔ یہی نہیں، اگر کثرتِ مشقِ سُخن اور اساتذہ کی صُحبت سے محرومی ہو، تب بھی کلام قبولِ عام کے درجے تک پہنچنے سے بڑی حد تک دُور رہے گا۔ بیان کیے گئے نِکات عمومی صُورت کے بارے میں ہیں اور استثنائی صُورتیں ان عوامل سے ماورا ہیں۔ شاداب ؔ صدّیقی خوش قسمتی سے اساتذہ کے صُحبت یافتہ بھی ہیں اور شاعری کے لیے درکار عوامل سے بہرہ مند بھی۔دیکھیے کس طور وادیِ عشق کی سیر کرتے نظر آتے ہیں۔؎’’کچھ نہ ہو عشق کے خزینے میں…تو مزہ ہی نہیں ہے جینے میں‘‘،’’ عشق کا ذوق ابتدائی دیا… اور پھر شوق انتہائی دیا‘‘۔ 

مجموعے میں نظمیں بھی شامل ہیں اور یہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکّاسی کرتی ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ شاعر کے یہاں غزلوں میں اظہار کا ہُنر زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ صاحبِ کتاب الفاظ و آہنگ کی دُنیا میں نووارد نہیں ہیں۔ قبل ازیں اُن کے تین مجموعے ’’آتشِ پنہاں‘‘،’’غم میری جاگیر‘‘ اور ’’جھیل کنارے‘‘قارئین کے سامنے آچُکے ہیں۔شاعر اپنا مقصدِ حیات بہت سادہ الفاظ میں دُنیا سے یوں بیان کر رہا ہے؎’’کچھ نہیں چاہیے کسی سے ہمیں…ہم تو بھوکے ہیں بس محبّت کے‘‘۔

تازہ ترین