دنیا میں کئی ادیب ایسے ہیں، جن کو قارئین سے زیادہ توجہ ناظرین کی طرف سے ملی ہے، یعنی وہ قلم کار جن کے کام کو جب کسی بھی ویژول میڈیم میں فلمایا گیا، تو ان کی شہرت کا تناسب مزید بڑھا۔ بیسویں صدی کے چند مقبول ادیبوںکی فہرست بنائی جائے، جن کو کتابوں کی دنیا اور سینما کے جہان میں بہت پسند کیا گیا تو ان میں ایک نام امریکی ادیب’’اسٹیفین کنگ‘‘ کا ہے، جنہوں نے مختلف قلمی ناموں سے بھی لکھا ہے۔
’’اسٹیفین کنگ‘‘ کی شہرت ایک ایسے ادیب کے طور پر ہے، جن کے ہاں موضوعات کا تنوع اور تجسس کا بھرپور رنگ ہے۔ انہوں نے انسانی ذہن میں چھپے ہوئے ڈر کے احساس کو اپنی کہانیوں میں جگہ دی، خوفناک اور مافوق الفطرت مخلوق کے بارے میں کہانیاں لکھیں۔ ساتھ ساتھ جرم و سزا کے کرداروں کو بھی اپنے ناولوں اور افسانوں کا حصہ بنایا، صرف یہی نہیں بلکہ ذیلی موضوعات کے طور پر سائنس فکشن اور سماجیات جیسے موضوعات کو بھی جگہ دی۔ ان کو خوف ناک کہانیاں لکھنے والے’’شہنشاہ ادیب‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔
یہ بچپن سے حساس طبیعت کے مالک تھے، جس کے پیچھے چند ایک وجوہات تھیں، جن میں سے سب سے بڑی وجہ والد کا ان کی زندگی سے الگ ہو جانا تھا۔ والدہ نے ان کی پرورش کی اور ان کا زیادہ وقت اپنے ننھیالی رشتے داروں میں گزرا۔ زندگی میں غربت سے بھی متاثر رہے، کئی بار ایسے مواقع بھی آئے، جب انہیں گزر بسر کرنے کے لیے رشتے داروں کی مدد حاصل کرنا پڑی۔
بچپن میں ایک ریل گاڑی کے حادثے میں ان کا ایک دوست جاں بحق ہوگیا، اس واقعہ کا بھی ان کے ذہن پر گہرا اثر ہوا۔ کہا جاتا ہے، ان کی کہانیوں میں بہت سارے خونی واقعات اور کرداروں کی بنت دراصل اسی نفسیات کے تحت ہوئی ہے، جو اس واقعہ کے بعد ان کے ذہن میں درآئی تھی۔ ان کی بیوی اور بیٹے سب لکھنے پڑھنے کے کام ہی سے وابستہ ہیں اور ادب ہی تخلیق کرتے ہیں۔
اسکول کے زمانہ طالب علمی سے ہی’’اسٹیفین کنگ‘‘ نے لکھنا شروع کیا۔ ابتدائی طور پر یہ اس کام کو سنجیدہ نہیں لیتے تھے، مگر ان کو لکھنے میں لطف بہت آتا تھا۔ اس لیے یہ لکھتے رہے ، پھر ان کی تخلیقی گاڑی درست راستے پر چڑھ دوڑی۔ 1947 ستمبر کے مہینے میں پیدا ہونے والے اس لائق شخص نے ساٹھ کی دہائی میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ طالب علموں کے رسائل و جرائد میں اپنی کہانیاں بھیجا کرتے تھے۔
پیشہ ورانہ طورپر ان کی پہلی مختصر کہانی تھی، جس پر ان کو معاوضہ ملا۔ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد چھوٹی موٹی ملازمتیں کرنے کے دوران، انہوں نے اپنے ذہن میں تخلیق ہونے والے کرداروں اور کہانیوں کو کاغذ پر اتارنے کا کام جاری رکھا، بالخصوص ناول نگاری پر توجہ دی، جبکہ یہ وہ وقت تھا، جب ان کے پاس اشاعت کے وسائل نہ تھے۔
1973 میں ان کا پہلا ناول’’کیری‘‘ شائع ہوا، جبکہ لکھنے کی ترتیب کے لحاظ سے یہ ان کا چوتھا ناول تھا، جس میں ایک ٹائپ رائٹر کے متعلق کہانی کو بیان کیا گیا، یہ ٹائپ رائٹر ان کی بیوی کا تھا۔ ان کی قسمت دیکھیے، جب پہلی مرتبہ کسی ناشر نے ان کا یہ ناول چھاپنے کا فیصلہ کیا، ان کو مطلع کرنے کے لیے ان کے گھر فون کیا، تو ان کے گھر کاوہ فون خراب پڑا ہوا تھا۔ آگے چل کر ان کے ناولوں پر فلمیں بھی بننا شروع ہوگئیں، اس کے بعدتو انہوں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ ان کے ناولوں اور دیگر کہانیوں پر فلموں کے علاوہ ٹیلی وژن پر بھی استفادہ کیا گیا اور کامک سیریز بھی بنیں۔ صرف سینما میں ان کی کہانیوں پر چالیس سے زائد فلمیں بنائی گئیں۔
ستر اور اسی کی دہائی سے، سینما کی شہرت سے گویا ان کی تخلیقات میں بھی شدت آگئی۔ تمام بڑے امریکی اخبارات بشمول نیویارک ٹائمز، ان کی کئی کتابیں متعدد بار بیسٹ سیلر اور ممتازمقام حاصل کرتی رہیں۔ یہ اب بھی ہردلعزیز ادیب ہیں، جن کی کتابیں آج کے ڈیجٹیل دور میں’’ای بک‘‘ کی شکل میں بھی بہت بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ 1996 میں پوپ میوزک کے سب سے بڑے امریکی گلوکار مائیکل جیکسن کے ایک ڈرائونے گانے’’گھوسٹ‘‘ کے لیے بھی اسٹیفین کنگ نے اپنی قلمی خدمات فراہم کی تھیں۔
حال ہی میں کورونا کی وبا کے بعد جب امریکا میں سینما کھلے ، تو یہ اپنے پوتے کے ساتھ فلم دیکھنے گئے۔ سینما ہال میں ان کے سوا صرف گنتی کے چند افراد تھے، ان کو سینما ہال کی ویرانی بالکل پسند نہیں آئی اور انہوں نے ٹوئٹرکے ذریعے اس پر اپنے تفکر کا اظہار بھی کیا۔ وہ اپنی کمائی کا ایک بڑا حصہ کتب خانوں کے فروغ کے لیے وقف کرتے ہیں اور بچوں کے لیے خطرناک قسم کی جو گیمز ایجاد کی گئی ہیں، ان کے آزادانہ استعمال پر بھی تنقید کرتے ہیں۔
’’اسٹیفین کنگ‘‘ نے اب تک 61 ناول اور ناولا لکھے ہیں، جن میں سے 7 ناول کسی اور قلمی نام سے تخلیق کیے۔ 200 سے زیادہ افسانے اور مختصر کہانیاں لکھی ہیں، جن کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ دنیا کے تمام بڑے ناشرین کے ہاں سے ان کی کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جبکہ تمام بڑے ادبی ایوارڈز بھی یہ حاصل کرچکے ہیں ۔ ان کے ایک ناولا’’ریتا ہے ورتھ اینڈ شوشانک ریڈمشن‘‘ لکھا، اسی نام سے ہالی ووڈ میںایک فلم بنی، جو 1994 میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے ہدایت کار’’فرینک ڈارا بونٹ‘‘ ہیں۔یہ فلم ہالی ووڈ کی بہترین فلموں میں شمار ہوتی ہے۔
یہ کہانی ایک جیل کی اندرونی زندگی کی کہانی ہے۔ اچھے اور برے قیدیوں کا فرق اور جیل سے فرار کی زندگی پر مبنی ہے، جس کو بہت عمدگی سے فلمایا گیا۔ دو قیدیوں کی دوستی اس کہانی کے مرکزی کردار ہیں، جن میں سے ایک کردار فرار ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ وہ اپنے کمرے میں ایک بلیک اینڈ وائٹ سینما کے زمانے کی اداکارہ کا پوسٹر دیوار پر چسپاں کرتا اور ہررات میں اس پوسٹر کے پیچھے سے اپنے فرار کے راستے کو کھوجتا اور کھودتا رہتا ہے،آخر کار ایک برساتی رات میںفرار ہو جاتا ہے۔ یہ ناولا اور فلم دونوں دیکھنے لائق ہیں، اگرآپ کو تجسس پر مبنی اس نوعیت کی کہانیاں پسند ہیں تو یہ ناولا اور فلم آپ ہی کے لیے ہے۔