لندن (پی اے) اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانوی معیشت کساد بازاری کے بعد بحال ہونا شروع ہوگئی ہے اور جولائی سے ستمبر کے دوران کی سہ ماہی میں معیشت میں15.5فیصد شرح نمو ریکارڈ کی گئی۔ معیشت کی بحالی کا عمل کورونا وائرس کی پہلی لہر کے بعد لاک ڈائون کے کم وبیش 6 ماہ بعد شروع ہوا ہے۔ تاہم قومی شماریات دفتر کا کہنا ہے کہ معیشت کی بحالی کی شرح ابھی اتنی زیادہ نہیں ہے کہ سابقہ نقصانات کا تدارک یا ازالہ ہوسکے، کیونکہ ملک کی معیشت اب بھی کورونا کے سبب لگائے جانے والے لاک ڈائون سے قبل کے مقابلے میں 8.2 فیصد سکڑی ہوئی ہے اور بیروزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں پر دوبارہ لاک ڈائون کے اثرات کی وجہ سے سال کی آخری سہ ماہی کے دوران معیشت کی ترقی کی رفتار میں ایک دفعہ پھر کمی آسکتی ہے۔ انگلینڈ میں 5 نومبر سے دوبارہ لاک ڈائون نافذ کیا گیا ہے، جو اب 2 دسمبر کو ختم کئے جانے کا امکان ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق کورونا کے سبب پہلے لاک ڈائون کے بعد ستمبر کے دوران معیشت میں ترقی کی شرح مسلسل 5ویں ماہ 1.1 فیصد تھی جو کہ اس سے قبل کے مہینوں کے مقابلے میں کم تھی۔ قومی شماریات دفتر کے اقتصادی شماریات کے ڈپٹی نیشنل ماہر شماریات جوناتھن ایتھو کا کہنا ہے کہ فی الوقت اگرچہ معیشت کے تمام بڑے شعبے بحالی کی راہ پر گامزن ہیں لیکن بحالی کی شرح بہت سست ہے اور معیشت کورونا کی وبا سے قبل کے مقابلے میں بہت نیچے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسکول کھلنے اور بچوں کی اسکول واپسی سے تعلیمی شعبے میں سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ہائوسنگ بلڈنگ کا شعبہ بھی مسلسل بحالی کی جانب گامزن ہے جبکہ اگست میں مندی کے بعد وکلا اور اکائونٹنٹس کا کام بھی مستحکم ہوا ہے لیکن پبس اور Eat Out to Help Out اسکیم کے بعد ریسٹورنٹس کے کاروبار میں مندی ریکارڈ کی گئی ہے۔ منگل کو جاری کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق ستمبر کو ختم ہونے والی سہ ماہی کے دوران بیروزگاری کی شرح میں 4.8 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جبکہ اس سے قبل بیروزگاری میں اضافے کی شرح 4.5 فیصد تھی، اس سہ ماہی کے دوران بیروزگاروں کی تعداد 243,000 تک پہنچ گئی۔ بیروزگاروں کی شرح میں یہ اضافہ مئی 2009 کے بعد سب سے زیادہ تھا جبکہ ملکی معیشت کی شرح پہلے کے مقابلے میں ایک چوتھائی رہی، معیشت میں اضافے کا اندازہ لگانے کیلئے وہی طریقہ کار اختیار کیا گیا جو 1940کی کساد بازاری کے دوران اختیار کیا گیا تھا۔ اگر جی ڈی پی کا اندازہ سابقہ سہ ماہی سے لگایا جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت کی بحالی کا سلسلہ جاری ہے۔ عمومی طور پر اس کے معنی یہ ہیں کہ مزید ملازمتوں کیلئے مزید دولت کی ضرورت ہے، اگر یہ اعشاریئے منفی ہوں تو ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت سکڑ رہی ہے اور مسلسل 2 سہ ماہیوں کے دوران معیشت میں آنے والے سکڑائو کی وجہ سے وہ صورت حال پیدا ہوئی، جسے کساد با زاری کہتے ہیں۔ پینتھیون میکرو اکنامکس کے چیف اکنامسٹ سیموئیل ٹومبز کا کہنا ہے کہ سال کی آخری سہ ماہی کے دوران معیشت کے 0.5 فیصد تک سکڑنے کا خدشہ ہے اور ماہ بہ ماہ بنیاد پر معیشت موسم بہار سے قبل، جب کورونا وائرس کی پابندیوں میں نمایاں نرمی کی توقع کی جارہی ہے، ستمبر کی سطح پر بحال نہیں ہوسکے گی۔ کیپٹل اکنامکس کے ماہر معاشیات تھومس پف کا کہنا ہے کہ اب تک جو کچھ ہوا ہے، اس کے بعد سامنے آنے والے اعدادوشمار نئے نہیں بلکہ پرانے معلوم ہوتے ہیں، ہمیں پہلے سے ہی معلوم تھا کہ اکتوبر میں جی ڈی پی کی بحالی کی کوشش ہوگی لیکن کورونا کی دوسری لہر کی وجہ سے لگائی جانے والی سخت پابندیوں سے اس پر شدید ضرب لگے گی لیکن ایک بہت ہی موثر ویکسین کی تیاری میں کامیابی کے بارے میں خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگلے 6 ماہ کے دوران معیشت کی صورت حال ہماری سابقہ توقعات سے بہت بہتر رہے گی۔ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کی چیف اکنامسٹ سارہ ہیون نے بی بی سی کو بتایا کہ 2021 کی پہلی سہ ماہی کے دوران غیر یقینی صورت حال جاری رہنے کی توقع ہے، خاص طور پر بریگزٹ کی مدت کے خاتمے اور سال کے اختتام کی وجہ سے تجارت میں خلل پڑسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کورونا کی ویکسین کی کامیابی بہت بڑی خبر ہے لیکن اس کے اثرات رونما ہونے میں وقت لگے گا۔