• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عظیم تر قومی مکالمےکی بحث ایک بار پھر جاری ہے۔ کیا مذکرات ہونے کا کوئی امکان ہے یا نہیں؟ اگر مذاکرات ہوں تو اُس میں مذکورہ دونوں فریقین کے ساتھ ساتھ دیگر فریقین کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے یا نہیں اور مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہونا چاہئے؟

مذاکرات یا مکالمے کی باتیں اُس وقت شروع ہوئیں جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک غیرملکی میڈیا کے ادارے کو اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا کہ اُن کی پارٹی اور فوج کے مابین مذاکرات ہو سکتے ہیں اور مذاکرات موجودہ فوجی قیادت کے ساتھ بھی ہو سکتے ہیں تاہم اُنہوں نے دو شرائط پیش کیں کہ یہ مذاکرات پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہوں گے اور دوسرا مذاکرات سے پہلے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ’’سلیکٹڈ ‘‘ حکومت کو جانا ہوگا۔ مریم نواز جس دوسرے فریق سے مذاکرات کے امکانات کی بات کر رہی ہیں، کیا وہ فریق مذاکرات میں بیٹھنے کے لئے تیار ہے؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ مریم نواز کا کہنا یہ ہے کہ اُن کے قریبی لوگوں کے ساتھ رابطے کئے جا رہے ہیں۔ اِن رابطوں کی اگرچہ حکومت یا متعلقہ اداروں کی طرف سے کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے لیکن کوئی تردید بھی نہیں ہوئی جبکہ شیخ رشید نے بھی تردید نہیں کی ۔

اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی جماعتیں کیا اِس پلیٹ فارم کو مذاکرات کے لئے استعمال کرنے دیں گی؟ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی اپنے ایک حالیہ بیان میں مریم نواز کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بھی پہلی مرتبہ اِس طرح کے مذاکرات کی مخالفت نہیں کر رہی ۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اگلے روز گلگت میں پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پی ڈی ایم فیصلہ کرے گی کہ اِس طرح کے مذاکرات ہونے چاہئیں یا نہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اُنہوں نے مذاکرات کی تجویز کی اُس طرح سے مخالفت نہیں کی، جس طرح اُنہوں نے 2017میں اپنی پارٹی کے اُس وقت کے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی ’’عظیم تر مذاکرات‘‘ (گرینڈ ڈائیلاگ) کی تجویز کی مخالفت کی تھی۔ میاں رضا ربانی نے تجویز دی تھی کہ پارلیمنٹ، فوج اور عدلیہ کے مابین عظیم تر مکالمہ ہونا چاہئے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اِسے میاں رضا ربانی کی ذاتی رائے قرار دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے حلقوں کا خیال تھا کہ اِس طرح کے مذاکرات یا مکالمےکا مطلب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کو ہمیشہ کے لئے تسلیم کر لیا جائے مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے بھی اداروں کے مابین مکالمے کی تجویز دی تھی۔ اِس تجویز کو بھی سیاسی قوتوں کی طرف سے کوئی پذیرائی نہیں ملی تھی لیکن اب پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتیں مکالمے یا مذاکرات پر رضا مندی ظاہر کر رہی ہیں۔ دوسری طرف سے بھی اِس تجویز کو مکمل اور جارحانہ طور پر رَد کرنے والا ماضی کا رویہ نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان میں اصلاحِ احوال کا اچھا موقع ہے۔

جب سے سوشل میڈیا آیا ہے، پرنٹ اور لیکٹرونک میڈیا پر بھی نہ صرف یکطرفہ باتیں کچھ حد تک کم ہو گئی ہیں بلکہ حقائق کو چھپانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اصلاحِ احوال کے لئے وسیع تر مکالمے کی تجویز پر اسٹیک ہولڈرز کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ آئین میں اگرچہ تمام اداروں کی حدود اور ذمہ داریوں کا تعین کر دیا گیا ہے لیکن حقیقت میں اِن حدود اور ذمہ داریوں سے تجاوز ہوتا رہتا ہے اور پاکستان اب خوف ناک چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات یا مکالمے کا امکان اِس وقت بھی کوئی زیادہ نہیں ہے کیونکہ فریقین صرف موجودہ صورت حال سے نکلنے کے لئے اِس تجویز کی حمایت کر رہے ہیں یا مخالفت نہیں کر رہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی حکومت مذاکرات یا مکالمے کی زبردست مخالف ہے۔ وہ مسلسل یہ باور کرا رہی ہے کہ اپوزیشن تحریک کو جلد ختم کر دیا جائے گا۔

میرے خیال میں عظیم تر مکالمےکی ضرورت فریقین کے مخصوص مفادات یا ایجنڈے سے کہیں بالاتر ہے۔ پاکستان کی معیشت اب کسی سے سنبھلنے والی نہیں رہی۔ لوگوں میں بےچینی اور انتشار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نئی عالمی اور علاقائی صف بندی میں پاکستان نہ صرف نیا میدانِ جنگ بن سکتا ہے بلکہ پاکستان کے دشمنوں نے سازشوں کو تیز کر دیا ہے۔ دہشت گرد پھر سے سر اٹھا رہے ہیں۔ عالمی طاقتوں کی کھینچا تانی سے ریاستی اور سیاسی اداروں کے مابین تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔ بہت مشکل حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ عظیم تر قومی مکالمے کی ضرورت فریقین کی اپنی ضرورتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں ایسے مذاکرات ہوئے ہیں۔ پاکستان میں یہ کوئی انوکھا تجربہ نہیں ہوگا۔ یہ مذاکرات آصف سعید کھوسہ کی تجاویز کی روشنی میں ہونے چاہئیں۔ تمام سیاسی قوتوں کو پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے عدلیہ اور فوج کے ساتھ مکالمہ کرنا چاہئے۔ یہ عظیم تر قومی مکالمہ ہوگا جس میں آئین پر پابندی کا ایک ایسا نیا میثاق کرنا چاہئے، جو موجودہ آئین سے کسی بھی طرح متصادم نہ ہو۔ ہر مسئلے کا حل مذاکرات ہیں۔ اِس سے پہلے کہ ایسے حالات نہ رہیں، مذاکرات اور مکالمے کی طرف سنجیدگی سے بڑھنا چاہئے۔ یہ گرینڈ مذاکرات قومی اور بین الاقوامی صورتحال میں پاکستان کے کردار پر محیط ہونے چاہئیں اور خاص طور پر جوبائیڈن کے آنے کے بعد دنیا میں جو نئی صف بندی ہو رہی ہے، اس کا بھی احاطہ کرنا چاہئے۔

تازہ ترین