• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

میں ایک اسّی سالہ بوڑھا پروفیسر، شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دباکے بیٹھا رہوں، تو ٹھیک، ورنہ اس وقت جو مُلک کی حالت ہے، دیکھی نہیں جاتی۔ ہم اُس نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جس نے عملاً اس ملک کی بنیادوں کو اپنا خونِ جگر دے کر کھڑا کیا۔ ایک ایک اینٹ خلوصِ نیّت سے لگائی اور اس گھر کی تعمیر میں مٹّی، گارے کی اینٹوں سے زیادہ عشق و جنون کی بھٹّی میں پکی اینٹوں کا عمل دخل ہے۔ مَیں بھی ہجرت کرکے آنے والے خاندانوں میں سے ایک خاندان کا حصّہ ہوں۔ 

گرچہ مَیں اُس وقت 10، 11 برس کا ایک معصوم بچّہ تھا، مگر غم و اندوہ کے وہ دن، وہ راتیں آج بھی بُھلائے نہیں بُھولتیں اور تب ہی آج اس مادرِ گیتی کی یہ حالت بھی دیکھی نہیں جاتی۔ اُن الم ناک، لرزہ خیز ایّام کی ایک خون آشام دوپہر آج بھی اُسی طرح تازہ ہے، جیسے کل ہی کی بات ہو۔ رات کے دو بجے تھے، ابّا بڑی حکمت کے ساتھ سِکھوں کی لال پگڑی باندھے گھر کے ایک ایک دو دو لوگوں کو پاکستان ہجرت کے لیے دلّی کے اسٹیشن کے قریب ایک ٹوٹی دیوار کے پیچھے جمع کررہے تھے۔ ٹرین کی حفاظت کے لیے ہندو فوجی اسٹیشن پر موجود تھے۔ فجر کی اذانیں ہونے والی تھیں کہ ٹرین کے آنے کی بھگدڑ مچی۔ اور جب لوگ ٹرین میں سوار ہوئے، تو یہ تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی تھی۔ چھت پر بھی لاتعداد لوگ سوار تھے۔

ٹرین میں بیٹھنے کے بعد ابّا نے پگڑی اتار دی تھی۔ ہم سب کو ٹرین کے لیٹرین کے ساتھ فرش پر جگہ ملی۔ ٹرین چلنے کے تھوڑی دیر بعد امّاں نے پوٹلی میں سے گُڑ اور چنے نکالے اور تھوڑے تھوڑے سب کو دے دیے۔ یہ ناشتا بھی تھا اور گزری رات کا کھانا بھی۔ ہندو فوجیوں نے یقین دلایا تھا کہ واہگہ بارڈر تک ٹرین کو بحفاظت پہنچائیں گے۔ نانی ہندو فوجیوں کو دعائیں دے رہی تھیں، لیکن ابا مضمحل تھے، غصّے میں کہہ رہے تھے۔ ’’بی امّاں! آپ ان بنیوں کو نہیں جانتیں، یہ بڑے دوغلے ہوتے ہیں۔‘‘ اُس وقت میری عُمر دس گیارہ برس تھی۔ نانی نے گُڑ، چنے ابّا کی طرف بڑھاتے ہوئے جھلّا کر کہا ’’ارے ہٹو بھئی! تم خواہ مخواہ بے چاروں کی نیّت پر شک کررہے ہو۔‘‘ سفر نہایت خاموشی سے گزر رہا تھا، سب کے لبوں پر دعائیں تھیں۔ 

ڈر، خوف اور وسوسوں کی کیفیت سے نکل کر ٹرین بحفاظت امرتسر پہنچنے والی تھی اور اُس وقت کھیتوں کے درمیان سے گزر رہی تھی کہ اچانک ایک جھٹکے سے رُک گئی۔ ابّا کی چھٹی حِس کسی خطرے کی نشان دہی کررہی تھی۔ انہوں نے بڑی پُھرتی کے ساتھ امّاں اور خالہ سمیت آس پاس جتنی جوان لڑکیاں تھیں، انہیں لیٹرین کے اندر دھکیلا اور امّاں کو خصوصی تاکید کردی کہ ’’اندر سے کُنڈی لگالو۔ اگر ٹرین کو آگ بھی لگ جائے، تو سب اندر ہی جل کر مرجانا، لیکن دروازہ نہ کھولنا اور نہ کوئی روشن دان سے جھانکے۔‘‘ اس چھوٹے سے لیٹرین میں کوئی بیس یا 22 نوجوان عورتیں تھیں۔ نانی بدستور ابّا کو بُرا بھلا کہنے میں مصروف تھیں۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ سِکھوں کے ایک جتّھے نے ہماری بوگی پر ہلّا بول دیا۔ 

مَیں ایک کونے میں سیٹ کے نیچے دُبکا ہوا تھا، میرے آگے نانی بیٹھی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ ابّا کے سر پر لال پگڑی دوبارہ آگئی تھی اور وہ چیخ چیخ کر سکھوں سے پنجابی زبان میں کچھ کہہ رہے تھے۔ ابّا کی لمبی داڑھی اور پگڑی کی وجہ سے وہ انہیں اپنا ہی آدمی سمجھ رہے تھے۔ نانی زیور والی گٹھری سختی سے پکڑے ہوئے تھیں۔ اتنے میں اچانک ایک سِکھ بلوائی ابّا کو دھکا دے کر نانی کی طرف لپکا اور چشمِ زدن میں اُن کی گٹھری پکڑے ہوئے ہاتھ پر تلوار کا اس قدر بھرپور وار کیا کہ اُن کی کُہنی کے اوپر سے ہاتھ کٹ کر گٹھری میں چپک گیا اور وہ سِکھ زیور کی گٹھری لے کر آناً فاناً فرار ہوگیا۔ تقریباً ایک گھنٹے تک قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہا۔ 

اس پوری واردات کے دوران ہندو فوجیوں کا کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں گئے۔ پوری گاڑی لاشوں سے اٹی پڑی تھی۔ کچھ دیر بعد جب دوبارہ گاڑی چلی، تو باہر کے لرزہ خیز مناظر دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگا۔ سِکھ بلوائی روتی پیٹتی، بلکتی، تڑپتی مسلمان لڑکیوں کو اٹھائے کھیتوں کی جانب بھاگ رہے تھے۔ بہت سوں کے ہاتھوں میں لوٹے ہوئے زیور کی گٹھریاں تھیں۔

ایک خونیں سفر کے بعد لٹی پٹی ٹرین جب واہگہ بارڈر پہنچی، تو لاہور کے غیور باسیوں کا حُسنِ سلوک دیکھ کر بے اختیار زبان سے نکلا ’’اے خطّہ لاہور! تیرے جوانوں کو سلام۔‘‘ اُس وقت ابّا دیوانوں کی طرح وطنِ عزیز کی پاک مٹّی چوم بھی رہے تھے اور سر پر ڈال کر دہاڑیں مارمارکر رو بھی رہے تھے۔ نانی کو فوری طور پر اسپتال پہنچادیا گیا تھا۔

جدوجہدِ آزادی اور ہجرت کے کرب ناک سفر کو آج ہماری نوجوان نسل کسی ناول کا پلاٹ یا افسانوں کا حصّہ سمجھتی ہے، لیکن الم ناک حقیقت تو یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت قتل و غارت گری اور لوٹ مار کے دوران مسلمانوں کی اغوا شدہ لڑکیاں آج بھی بہت سے سِکھ خاندانوں میں موجود ہیں، جو اب بوڑھی ہوچکی ہیں۔ ان میں بہت سی ایسی خواتین بھی ہیں، جنہوں نے سکھوں کی اولاد کو تو جنم دیا، لیکن اپنا مذہب نہیں بدلا اور اسلامی شعائر کی پابندی کرتے ہوئے باقاعدگی سے نماز پڑھتیں، روزے رکھتی ہیں۔ سعودی عرب میں مشرقی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سِکھ نے مجھے بتایا کہ ’’میری ماں مسلمان تھی۔ 1947ء میں میرا سِکھ باپ اُسے اٹھاکر لایا تھا، لیکن میری ماں نے اپنا مذہب نہیں بدلا۔ مَیں نے انہیں اپنے ابّا کے سامنے بھی نماز پڑھتے اور مسلمانوں کے لیے دعائیں کرتے دیکھا۔ 

جب میں سنِ شعور کو پہنچا اور میری ماں نے اپنی لرزہ خیز داستان سنائی، تو صدقِ دل سے اسلام قبول کرکے مسلمان ہوگیا۔ ماں کے انتقال پر انہیں اسلامی طریقے سے مسلمانوں کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا اور خود سعودی عرب آگیا۔‘‘ آج اتنا عرصہ گزرنے کے بعد یہ فکر دامن گیر ہے کہ نئی نسل کو قیامِ پاکستان کی یہ داستانِ خونچکاں سنانے والے اب کتنے لوگ رہ گئے ہیں؟ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جدوجہدِ آزادی کے دوران پیش آنے والے ان اَلم ناک واقعات کو تسلسل کے ساتھ قلم بند کروانے کا سلسلہ شروع کیا جائے، تاکہ نئی نسل کو معلوم ہوسکے کہ اس مملکتِ خداداد کے حصول کے لیے کس قدر قربانیاں دی گئیں اور خون کے کتنے دریا عبور کرنے کے بعد ہم آج اپنی اس دھرتی میں سُکھ چین کی زندگی گزار رہے ہیں۔ (پروفیسر سیّد منصور علی خان، گلشن اقبال، کراچی)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بِنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز، اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر،سنڈے میگزین صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘، روزنامہ جنگ، شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

تازہ ترین