• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال :۔نماز اور روزوں کے فدیے کا کیا حکم ہے۔کیا اس کا ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اور کتنا ادا کیا جاتا ہے اور کن کو دیا جاتا ہے؟

جواب :۔اگر مرحوم نے اپنی قضا نمازوںاور روزوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی تھی تو ان کے مال ایک تہائی میں سے فدیے کی رقم نکالی جائےگی۔اگر تمام قضا نمازوں اور روزوں کا فدیہ ایک تہائی ترکے میں سے ادا ہوجائے تواداکردیاجائے گا۔ اگر تہائی مال کافی نہ ہو تہائی مال سے زیادہ کی ادائیگی ورثاء کے ذمے لازم نہ ہوگی ،تاہم اگر وہ اداکردیتے ہیں ،وہ عاقل اوربالغ بھی ہیں تو ان کی طرف سے مرحوم پراحسان ہوگا۔ اگر مرحوم نے فدیہ اداکرنے کی وصیت نہیں کی ہے تو ورثاء پران کی نماز اور روزےکا فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر ورثاء اپنی خوشی سے ادا کردیں تو امید ہے کہ مرحوم آخرت کی باز پُرس سے بچ جائیں گے۔

ایک روزے یا ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے۔ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا اس کاآٹا یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔اگر مرحوم کے ذمے نمازوں اور روزوں کی تعداد معلوم ہے تو ورثاء اسی کے بقدر فدیہ دیں اور اگر تعدادمعلوم نہیں ہے تواندازہ لگاکر اداکرسکتے ہیں۔فدیہ اس شخص کودیاجاسکتا ہے جسے زکوٰۃ دیناجائز ہے یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور صاحبِ نصاب بھی نہ ہو ۔

تازہ ترین