• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خاکسار طویل عرصے سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ہمیں ڈیپ اسٹیٹ تھیوری کی طرف جانا چاہیے کیونکہ جن ملکوں نے اس تھیوری پر عمل کیا، وہ مضبوط ہوگئے اور جہاں ڈیپ اسٹیٹ تھیوری کی کمی رہی وہ ملک کمزور ہوتے چلے گئے۔ 

ہمیں دنیا میں اپنےدشمنوں کی چالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دل و جان سے ڈیپ اسٹیٹ تھیوری پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ ہمارا ملک ایٹمی قوت ہے، ہمیں اللہ تعالیٰ نے جغرافیائی طور پر بہت اہم بنایا، دنیا کے ساڑھے چار ارب انسانوں کے لئے دروازہ ہمارے پاس ہے، ہمارے پاس زرخیز ملک ہے۔

ہماری افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتاہے ، ہمارے پاس نوجوان نسل کی اکثریت موجود ہے، ہمارے نوجوانوں کی ذہانت کا معیار (آئی کیو لیول) دنیا کے باقی نوجوانوں سے بہتر ہے، ہمارے پھل، فصلیں بہترین، ہمارے پاس پہاڑ، دریا، صحرا، سبزہ، میدان سب کچھ ہے، معدنیات بھی بہت ہیں۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک سیاسی سمت کا درست تعین نہیں ہوسکا، ایک غیر مستحکم سیاسی نظام نے کرپشن کا زہر گھول دیا، آج ہر شعبے میں کرپشن ہے۔

ایک مضبوط سیاسی نظام اور قانون کی حکمرانی ہی سے اس ناسور کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ 

ہمیں پرائمری سطح پر اپنی اگلی نسل کی اعلیٰ اخلاقی تربیت بھی کرنا ہوگی، ہمارے ہاں اسکولوں میں سوشل ٹریننگ کا کوئی پروگرام ہی نہیں، دنیا کے کئی ملکوں میں تعلیم سے پہلے تربیت فراہم کی جاتی ہے۔

پاکستان کے غیر مستحکم سیاسی نظام کی صورت حال بڑی عجیب ہے اگر آپ الیکشن جیت جائیں تو الیکشن شفاف اور اگر الیکشن ہار جائیں تو پھر دھاندلی کا شور مچایا جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو دیکھا جائے تو 70ء کے بعد جتنے بھی الیکشن ہوئے انہیں دھاندلی زدہ قرار دیا گیا۔ 

1977 میں قومی اتحاد نے دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی، حالات اس قدر سنگین ہوگئے کہ مارشل لا لگ گیا۔ 1985ء میں ضیاء الحق نے سیاسی مخالفین سے بچنے کے لئے غیر جماعتی انتخابات کروا ڈالے جس کا واحد مقصد بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنا تھا، اسی دوران ضیاء الحق نے اپنے خاص پیروکاروں پر مشتمل ایک سیاسی پنیری لگائی۔ 

اس پنیری کو آج کل جمہوریت بہت یاد آتی ہے وہ ایک ایسا بیانیہ لائے ہیں جسے پاکستانیوں نے مسترد کردیا ہے۔ فوج کی چھتری تلے نواز شریف کی سیاسی آمد ہوئی، وہ وزیر خزانہ سے ہوتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے۔ 

1988ء میں ہونے والے الیکشن عجیب تھے کہ الیکشن سے پہلے بھی نواز شریف وزیر اعلیٰ تھے اور ’’جمہوریت کی مضبوطی‘‘ کے لئے نگران وزیر اعلیٰ بھی نواز شریف ہی تھے۔ 

جب تمام تر حربوں کے باوجود قومی اسمبلی کے الیکشن پیپلز پارٹی جیت گئی تو تین روزبعد ہونے والے صوبائی انتخابات سے پہلے نواز شریف نے ’’جاگ پنجابی جاگ‘ تیری پگ نوں لگ گیا داگ‘‘ کا نعرہ لگا دیا۔ 

1991 میں آئی جے آئی کے مربے کو الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے کامیابی ملی، پیپلز پارٹی نے وائٹ پیپر بھی شائع کیاکہ کس کو کتنے پیسے بانٹے گئے؟ یہ مقدمہ بھی اہم رہا، 93ء کے بعد 97ء کے الیکشن میں بھی وسیع پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگے۔ اسی طرح 2002ء کے الیکشن میں سائنسی بنیادوں پر کام دکھایا گیا، 2008ء کا الیکشن محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہوا۔ 

ویسے بھی اس الیکشن سےقبل نواز شریف پیپلز پارٹی کے ساتھ ’’میثاق جمہوریت‘‘ پر دستخط کر چکے تھے مگر چند برس بعد ہی نواز شرف میثاق جمہوریت کو توڑ کر کالا کوٹ پہنے عدالت چلے گئے۔ 

اس دوران 18 ویں ترمیم ہوئی جس سے وفاق کمزور ہوا، اس ترمیم کی کئی شقوں کا خمیازہ وفاق اب بھی بھگت رہا ہے۔ 2013ء کے الیکشن کا حال عجیب تھا، ن لیگ نے 146 ٹکٹ ق لیگ سے آنے والوں کو دے دیئے۔ 

پھر یہ وہ الیکشن تھا جس میں نوازشریف رات دس ساڑھے دس بجے ’’کسی سے‘‘ اکثریت مانگ رہے تھے۔ ان انتخابات کو آصف علی زرداری نے آر اوز کے الیکشن قرار دیا، تحریک انصاف نے دھاندلی پر دھرنا دیا۔ 2018ء کے الیکشن کو ن لیگ اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت کئی سیاستدانوں نے دھاندلی زدہ قرار دیا۔

دوستو! پاکستان میں انتخابات کی تاریخ دھاندلی کے الزامات سے بھری پڑی ہے۔ موجودہ حکومت اگر انتخابی اصلاحات کرنا چاہتی ہے تو اپوزیشن کو تعاون کرنا چاہیے۔ 

وزیر اعظم نے اپوزیشن کو دعوت بھی دی ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات کی خاطر مل بیٹھے۔ الیکٹرانک ووٹنگ سے یقینی طور پر بہتری آئے گی، انتخابی نظام میں تبدیلیوں کے ذریعے خامیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ 

اس سلسلے میںبنگلہ دیشی انتخابی نظام سے بھی مدد حاصل کی جاسکتی ہے کیونکہ خطے میں اس وقت سب سے بہتر انتخابی نظام بنگلہ دیش کے پاس ہے۔ نئی انتخابی اصلاحات کے تحت سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جارہا ہے۔

اوورسیز پاکستانیوں کا حق اس سے کہیں زیادہ ہے، انہیں نمائندگی بھی دی جانی چاہیے کیونکہ انہوں نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے لہٰذا سینٹ اور تمام اسمبلیوں میں اوورسیز پاکستانیوں کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ اپوزیشن بھی ’’میثاق پاکستان‘‘ چاہتی ہے۔

سب کو مل کر ایک معاہدہ کرلینا چاہیے تاکہ ملک ترقی کرے، سیاسی استحکام آئے، ہمارے سیاستدانوں کو عدالتی فیصلوں کا احترام بھی کرنا چاہیے۔

ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ فیصلہ حق میں آئے تو قانون کی بالادستی اور خلاف آئے تو انصاف کا قتل، ہمیں اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانی چاہیے ورنہ

کتنے جھوٹے تھے ہم محبت میں

تم بھی زندہ ہو، میں بھی زندہ ہوں

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین