• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ نظم جو فیض احمد فیض نے نورجہاں کے نام کردی تھی


انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی آج 35ویں برسی منائی جارہی ہے، اس دن کی مناسبت سے عہد ساز شاعر فیض احمد فیض کی وہ نظم آپ کیلئے پیش کررہے ہیں جسے فیض نے ملکہ ترنم نور جہاں کے نام کردیا تھا۔

ملکہ ترنم نور جہاں کی تعریف کے لیے فیض احمد فیض کے تاریخی الفاظ ہی کافی ہیں۔

بھئی نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘ تو ہم نے نور جہاں کو دے دی ہے‘ وہ اب ہماری نہیں ہے۔

جب نور جہاں نے فیض صاحب کی مشہور نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ گائی تو ہر طرف بس اس نظم کے چرچے ہونے لگے۔

یہاں تک کہ بھارت میں گانے لکھنے والے مجروح سلطان پوری نے بھی اس نظم کی ایک سطر ’تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے‘ مستعار لی تھی جسے بعد میں 1969 میں ریلیز ہونے والی فلم ’چراغ‘ کے گانے میں شامل کیا گیا۔

بے انتہا تاثیر رکھنے والے الفاظ اور نور جہاں کے ترنم نے مل کر نظم کو نہایت پُراثر بنادیا تھا جس نے لوگوں کے دلوں کو چھو لیا تھا۔


ایک تقریب میں فیض صاحب سے ایک شخص نے کہا کہ آپ کی نظم کو نور جہاں نے خوب برتا ہے، تو فیض صاحب نے اپنے روایتی انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ ’بھئی وہ نظم تو ہم نے نور جہاں کو دے دی ہے، وہ اب ہماری نہیں ہے۔ ‘

اس کے بعد بھی متعدد مرتبہ جب بھی فیض سے یہ نظم پڑھنے کیلئے کہا گیا انہوں نے یہی کہتے ہوئے معذرت کرلی تھی۔

کچھ نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘ کے بارے میں:

فیض احمد فیض کی مقبول ترین نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘ نقش فریادی کے دوسرے حصے کی پہلی نظم ہے اور اس لحاظ سے خاص ہے کہ نقش فریادی ایک ایسی کتاب تسلیم کی گئی ہے جس نے فیض احمد فیض کی ادبی شناخت کو ایک غیر معمولی پختگی کی سمت مائل کیا-

فیض کی شاعری میں جو تغزل اور احتجاج کا سنگم نظر آتا ہے اس کا آغاز اسی نظم سے ہوا -

اس حصے کے آغاز میں فیض نے نظامی کا یہ حوالہ بھی دیا ہے ’دل بفروختم جان خریدم‘ (میں نے دل بیچ دیا ہے اور روح خرید لی ہے)

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات

تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے

تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات

تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے

یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم

ریشم و اطلس و کمخاب میں بنوائے ہوئے

جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم

خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے

پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے

اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجے

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

تازہ ترین