عہد ساز انقلابی شاعر فیض احمد فیض کو ہم سے بچھڑے 35برس بیت گئے مگر ان کی انقلابی شاعری آج بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔
فیض جیسی عہد ساز شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے آج اُن کی زندگی کے دلچسپ لمحات کا ذکر کریں گے۔
دلیپ کمار نے فیض سے جب آٹوگراف مانگا
گزشتہ 7 برسوں سے فیض کی خدمات کو سراہنے کے لیے فیض ادبی میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں ان کی زندگی کے یادگار پہلوؤں کا ذکر ہوتا ہے۔
فیض احمد فیض کے نواسے عدیل ہاشمی نےفیض اور دلیپ کمار کی 60 کی دہائی کی ملاقات کا ایک قصہ سناتے ہوئے بتایا کہ اُن کی والدہ منیزہ ہاشمی دلیپ کمار کی بہت بڑی مداح ہیں۔
فیض نے بھارت کے دورے سے قبل منیزہ ہاشمی سے پوچھا کہ اگر آپ کو بھارت سے کچھ منگوانا ہو تو بتادیں ؟
منیزہ نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا آپ وہاں دلیپ کمار سے ملاقات کریں گے؟
فیض کے جواب میں منیزہ نے اُن سے فرمائش کی کہ انہیں دلیپ کمار کا آٹوگراف چاہئے۔
کچھ دنوں بعد جب فیض کی واپسی ہوئی اور منیزہ نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا انہیں دلیپ کمار کا آٹوگراف لانا یاد رہا؟
اس کے جواب میں فیض نے انہیں بتایا کہ ’دلیپ کمار مجھ سے میرا آٹوگراف مانگ رہے تھے تو میں اُن سے کیسے آٹوگراف مانگتا۔‘
فلم ’ مغل اعظم ‘کی شُوٹنگ میں فیض کی شرکت
یاسر عباس نے اپنی کتاب ’یہ اُن دنوں کی بات ہے‘ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ معروف فلم ’مغل اعظم ‘ کا گیت ’موہے پنگھٹ پہ نندلال چھیڑ گیو‘ فلمایا جا رہا تھا تو اس گیت کی شوٹنگ دیکھنے بہت سےمعروف لوگ آیا کرتے تھے۔
مشہور و معروف شخصیات میں چینی وزیر اعظم چو این لائی، معروف شاعر فیض احمد فیض اور بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم بننے والے ذوالفقار علی بھٹو اہم تھے۔
اس گانے کی شوٹنگ جتنے دن جاری رہی، وہ روز شوٹنگ دیکھنے آتے۔ وہ جب بھی سیٹ پر ہوتے تھے، دیگر لوگوں کے ساتھ کھانا بھی کھاتے تھے۔
جاوید اختر کی فیض احمد فیض سے پہلی ملاقات
تاریخ میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ جب بڑا آدمی اور بڑا فن ایک ساتھ آجائے ،اور جب یہ ہوتا ہے تو فیض ہوتا ہے
یہ الفاظ بالی ووڈ کے مشہور شاعر، منظر نامہ نگار جاوید اختر کے انقلابی شاعر فیض احمد فیض کے لیے ہیں۔
1967-68 میں فیض صاحب مشاعرے میں شرکت کے لیے جب بھارت گئے اور وہاں فیض سے جاوید اختر کی ناقابل یقین ملاقات ہوئی تھی۔
جاوید اختر نے اس ملاقات کو بڑے دلچسپ انداز میں تحریر کیا ہے اس سے زیادہ پر مزاح انداز میں عدیل ہاشمی نے ’فیض ادبی میلے‘ میں بیان کیا ہے۔
جاوید اختر کے مطابق فیض صاحب کے بھارت جانے کی خبروں سے کھلبلی سی مچ گئی اور ہمیں بھی فیض صاحب سے ملاقات کی حسرت جاگی۔
جاوید اختر نے بتایا کہ اس وقت ہماری عمر 21 یا 22 برس تھی، جوش جنون اپنے عروج پر تھا جبکہ مالی حالت ایسی تھی کہ بس کا ٹکٹ لے کر وہاں جانا بھی مشکل تھا جہاں مشاعرہ ہورہا تھا تو مشاعرے کا ٹکٹ لینا تو بہت دور کی بات ہے۔
جاوید اختر نے بتایا کہ ایسی صورتحال نے انہیں بہت غمزدہ کیا کہ فیض صاحب کے شہر میں ہونے کے باوجود اُن سے ملاقات ناممکن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ ایک لوکل ٹرین میں سوار ہو کر پہلے مشاعرے والے اسٹیشن پہنچے وہاں اوپن ایئر تھیٹر گئے جہاں مشاعرہ منعقد کیا گیا تھا، چونکہ رات زیادہ ہوچکی تھی تو گارڈز وغیرہ موجود نہیں تھے۔
اُس مشاعرے میں پہنچ کر جاوید اختر پہلے اسٹیج تک پہنچے، وہاں گاؤ تکیوں سے ایسی ٹیک لگائی کہ آنکھ لگ گئی۔
آنکھ جب کھلی تو مشاعرے کا اختتام ہوگیا تھا، جیسے ہی دیکھا تو فیض صاحب رضاکاروں کے ہمراہ اپنی گاڑی کی طرف جا رہے تھے۔
ایسے میں جاوید اختر بڑے دلیرانہ انداز سے ہجوم کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور فیض صاحب کو گاڑی میں بٹھاتے ہوئے ساتھ خود بھی بیٹھ گئے اور راستے میں بڑے دوستانہ انداز سے گفتگو کرتے رہے۔
جاوید اختر ہوٹل کے کمرے تک ساتھ گئے اور وہاں پہلے میں نے ایک سگریٹ فیض صاحب کو دی اور ایک خود لی۔
سگریٹ کے کش لگانے کے ساتھ ساتھ جاوید اختر نے فیض صاحب کو ’اردو کے مستقبل‘ کے حوالے سے ایک جامع لیکچر دیا۔
صبح ہوئی تو فیض کی اہلیہ پہنچ چکی تھیں اور پریس کے لوگوں کا بھی ہوٹل کے ارد گرد مجمع لگا ہوا تھا۔
محترمہ ایلس فیض کے بار بار پوچھنے پر کہ آپ کے کمرے میں کون سو رہا ہے، اور فیض صاحب کے بار بار بات پلٹنے پر میں نے خود ہی وہاں سے اجازت چاہی اور ایسی دوڑ لگائی کہ گھر آکر ہی دم لیا۔