• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیکسوں کی وصولی اور اِس تناظر میں اہداف کا تعین پاکستان کی ہر حکومت اور اُس کی معاشی ٹیم کے لیے کبھی آسان نہیں رہا۔ موجودہ حکومت رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بھی ٹیکس کی وصولی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ٹیکسوں کی وصولی کے لیے اگرچہ ایک مربوط میکانزم کی تشکیل کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے ہیں جن میں سرفہرست ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ کرنا شامل ہے لیکن یہ ہدف حاصل کرنا بھی ناممکنات میں سے ایک دکھائی دے رہا ہے کیونکہ اہلِ وطن کی ایک بڑی تعداد ڈبے کے دودھ سے لے کر پیٹرول تک، بالواسطہ ٹیکس ادا کرتی ہے اور ظاہر ہے، ان میں اکثریت عوام کے اس طبقے کی ہے جو غربت کی سطح سے نیچے یا سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس سارے پس منظر میںموجودہ حکومت کے نہایت اہم رُکن اور وزیراعظم عمران خان کے مشیرِبرائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے یہ کہا ہے کہ اگر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) قابلِ ٹیکس آمدنی وصول کرنا شروع کر دے تو قرضے لینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ یہ حکومت کی جانب سے ایک طرح کا اعتراف ہے کہ ایف بی آر ٹیکس کے لیے مقرر کردہ اہداف حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کر پا رہا۔ ادارے کی ری سٹرکچرنگ پر بھی بہت بات ہوتی ہے لیکن ایف بی آر کے موجودہ چیئرمین جاوید غنی موجودہ دورِ حکومت میں ادارے کے چوتھے سربراہ ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ شبر زیدی بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکے۔ اِن حالات میں حکومت کے لیے ایک جانب ٹیکسوں کی وصولی کے نظام کو شفاف بنانا اور بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح کم کرنا ضروری ہے تو دوسری جانب عوام بھی اپنا فرض سمجھ کر ٹیکس ادا کریں کیوں کہ ملک کو حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست بنانے کے لیے ٹیکسوں کی ادائیگی کامربوط نظام ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

تازہ ترین