• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

20 نومبر، 2020گلگت بلتستان کے انتخابات کا جو نتیجہ نکلا ہے۔ عوام ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں کریں گے۔میں کسی صورت بھی اس نتیجہ کو درست نہیں مان سکتی کیونکہ یہ وہاں کے عوام کی حقیقی رائے ہو ہی نہیں سکتی، انتخابات سے قبل میں نے مریم نواز شریف کے ہمراہ گلگت بلتستان کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا،وہاں کا چپہ چپہ دیکھا ، جلسوں میں جو متحرک عوام دیکھے، وہ ایک الگ یادگار اورشاندار کہانی ہے۔جلسوں سے ہٹ کر بذات خود سینکڑوں خواتین ووٹروں کو ملی تو پتہ چلا کہ وہاں کے عوام میں میاں نواز شریف کی مقبولیت کی وجہ ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف فراہم کرنا تھا،عوام کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف جو وعدہ کرتے، اُسے پورا ضرور کرتے تھے، اگر کسی وجہ سے کوئی ترقیاتی کام پورا نہ ہوسکتا تو اسے جزوی طور پر ضرور پورا کردیا کرتے تھے، سب سے بڑی بات انھیں عمومی طور پر اپنے نامکمل وعدے اس لئےزیادہ یاد ہوتے تھے کہ انھیں پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوتا تھا۔گلگت بلتستان کے انتخابات سے قبل دن دیہاڑے جس طرح لیگی ٹکٹ ہولڈرز کو ڈرا دھمکا کر مسلم لیگ ن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، اسے نہ صرف مقامی بلکہ پورے ملک کے عوام بھی نہیں بھو ل پائیں گے، مورخ ضرور یہ لکھے گا کہ تاریخ میں پہلی بار ایسی وفاقی حکومت بھی آئی تھی جس کے امیدواروں کا گلگت بلتستان کے انتخابات سے چند روز پہلے جنم ہوا اور بڑے ہی بھونڈے طریقے سے وہ سب سے زیادہ نشستیں لےگئی، کھلم کھلا دھاندلی کے باوجود وہ سادہ اکثریت بھی نہ لے سکی ، گلگت بلتستان کا بچہ بچہ اسے تاریخ کی بد ترین دھاندلی قرار دے رہا ہے، گولی لاٹھی سے جیتنے کا نتیجہ احتجاجی تحریک کی شکل میں برآمد ہورہا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ شدید ہوتی جائیگی۔ عالمی میڈیا گلگت بلتستان کے انتخابات کے نتیجے کو رائے عامہ تسلیم نہیں کررہا بالکل ویسے ہی جیسا کہ2018کے ملکی انتخابات کو بھی بین الاقوامی سطح پر شفاف قرار نہیں دیا گیا تھا،ووٹوں کی چوری کرکے گلگت بلتستان کےعوام کے حقوق پردن دیہاڑے ڈاکہ ڈالا گیا ہے،ایسی جیت تو سراسر رسوائی ہوا کرتی ہے جس کے بعد جیتنے والا کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ٹھہرتا لیکن تف ہے ان پر جو جعلی بیانیےکو سوغات کی مانند پھیلا کر اپنی جعلی کامیابی پر اترائے جارہے ہیں۔جھوٹے بیانئے کی پیدائش کو کامیابی بنا کر پیش کرنےوالوں کیلئے عرض ہے کہ وہ دائمی زوال کی کھائی میں انتہائی سرعت سے گرتے چلے جارہے ہیں،ان کیلئے یہ انتباہی اشعار ہی بہت ہیں ۔۔۔ ڈکیتی نویلی ڈال کے ، ذلت جعلی کما کے ،کر تے ر ہو گےتکرار مگرکب تک ، کرکے وعدے کذب کے، چھالے ڈال کے کرب کے ، بھر تے رہو گے قید خانے مگر کب تک ، کچھ کو دے کر پڑیازہرکی،کچھ کا نکال کےدم ،تھما تے ر ہو گے پروانے اجل کے مگر کب تک ،بے ثباتی ارباب کی میں کیاکروں بیاں ، منسوب ہیں اس سے آپ کے جذبات مگرکب تک ، مغلوب ہوکر جن سے، بن کر موجِ بلا ، بہت سوں کو، لیجاتے ر ہو گے اٹھا کے مگر کب تک ، مخالف جذبات کر کےڈیلیٹ ، پسند کا ڈال کے سافٹ وئیر، بناتے ر ہو گے انھیں روبوٹ مگر کب تک ، جیتے جاگتے انسانوں جیسے روبوٹ ، سوچیں تو تم کو ، بولیں تو صرف تمہاری زباں مگرکب تک ، بیج نفرت و جھوٹ کے بو کر ،راہ کے باغی خیمےسارے، جلا تے ہی رہو گے تم مگر کب تک ، نیرنگی سیاست کے ہر چوک، ہر گلی ہر میدان کو، بناتے رہو گے مقتل جاناں مگرکب تک ، خانہ خدمت سیاست کو تم ،بنا تے رہو گے مے خانہ بے خودی مگرکب تک ، مخالف راہیوں کے گلوں میں، ڈا لتے رہو جبراً طوق غلامی مگر کب تک ، رقم کئے جارہے ہو خرافات ہی خرافات ،صدمے بھی ہمراہ ہیں بہت مگر کب تک ، یاد ہے نا جب تشریف لائے موسٰی اس سرزمیں پہ ، کیوں نہ تاراج ہوتا فرعون مگر کب تک۔

تازہ ترین