• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے دونوں طرف ہرے بھرے کھیت ہیں۔ دور دور تک گنے کی فصل ۔ کیلے کے درخت۔ میری مائیں بہنیں کھیتوں میں کپاس چن رہی ہیں۔ قومی شاہراہ پر ہمارے آگے پیچھے بڑے بڑے ٹریلر کارخانوں کی مشینری اور پیٹرول کے ٹینکر دونوں طرف آجارہے ہیں۔ جدید ترین لمبی لمبی بسیں مسافروں کو لیے فراٹے بھر رہی ہیں۔

اپنے ملک کے بارے میں میڈیا کے بد خواہوں کی ساری افواہیں ہوا میں تحلیل ہورہی ہیں۔ پاکستان کے اکثر شہر میں اپنی آنکھوں سے رونق بھرے دیکھ رہا ہوں۔ چھوٹی دکانیں۔ چھاپڑیاں۔ ریڑھیاں۔ سب پر گاہک کھڑے ہیں۔ شاپنگ مال ہیں۔ سارے برانڈز ہیں۔ ہمیں کسی خاندانی مصروفیت کے لیے اسلام آباد پہنچنا ہے۔ ہماری بیگم کو فضائی سفر منع ہے۔ وہ بس سے ہی اپنے میکے سرگودھے گئی تھیں۔ اب انہیں لینے کے لیے ہم نے ٹھانی کہ اپنی گاڑی سے اسلام آباد جائیں۔ اپنا وطن دیکھیں جو جہاز سے بہت چھوٹا اور دھندلا نظر آتا ہے۔ ہم پاکستان کے پہلے دارُالحکومت سے موجودہ دارُالحکومت تک۔ شہر قائد سے شہر اقتدار تک سڑکوں سڑک جارہے ہیں۔ فیصلہ مناسب لگ رہا ہے۔ گاڑی بھی ہمارے ساتھ چلنے کو جیسے بے تاب تھی۔ فوراً تیار ہوگئی۔

شہر انگڑائیاں لے رہے ہیں۔ گائوں کروٹیں بدل رہے ہیں۔ ہمارے لوگ اس ملک کے اصل مالک اپنے اپنے معمول میں مصروف ہیں۔ گاڑی سے ایک نامانوس آواز آرہی ہے، ہالا میں ایک ورکشاپ پر تشخیص ہوتی ہے۔ بیرنگ کا مسئلہ ہے۔ پرزہ ہالا میں دستیاب نہیں ہے۔ حیدر آباد سے آئے گا۔ انتظار کرنا ہوگا۔ قاضی اسد عابد کو فون کرتا ہوں، ہالا پریس کلب سے سموں آجاتے ہیں۔ ہمدم دیرینہ سید خادم علی شاہ سے رابطہ کرتا ہوں۔ کھنڈو گائوں نزدیک ہی ہے۔ وہاں سے میر تاج محمد تالپور اپنا سب کام چھوڑ کر آن پہنچے، پھر اپنے گائوں لے جاتے ہیں۔ ﷲ کا شکر ہے۔ پرزہ مل گیا ہے۔ اور گاڑی چل پڑی ہے۔ مگر سات گھنٹے اس کی نذر ہوگئے۔

کورونا 19کی وجہ سے سڑک سے سفر کا رجحان بہت ہوگیا ہے۔ جدید بسیں چل رہی ہیں۔ آرام دہ۔ سڑکیں بہت اچھی ہوگئی ہیں۔ کراچی حیدر آباد پہلے سپرہائی وے تھی۔ اب موٹر وے 9ہوگئی ہے۔ سہولتیں موٹر وے والی نہیں ہیں۔ حیدر آباد سکھر کا پونے تین سو کلومیٹر کا حصّہ ابھی قومی شاہراہ پر ہی ہے۔ مختلف سیاسی عسکری تنازعات کے باعث موٹر وے بننا ابھی نہیں شروع ہوا ہے۔ یہ حصّہ بن جائے تو پورا پاکستان موٹر وے سے قراقرم تک گھوما جاسکے گا۔ ادھر کراچی کوئٹہ بھی ابھی ان سہولتوں سے محروم ہے۔

میں تو جب اپنے عظیم وطن میں سڑکوں سے سفر کرتا ہوں تو اپنے ملک پر میرے یقین اور بھروسے میں اضافہ ہوتا ہے۔ مجھے استحکام اور دوام کی نوید ملتی ہے۔ شاہراہ سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کاروبار کتنا چل رہا ہے۔ سر راہ مسافروں سے بھرے ریستورانوں کی آرائش و زیبائش دیدنی ہے۔ شاہراہوں سے اکثر سفر کرنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ کڑک دودھ پتی کہاں ملتی ہے۔ کہاں کا کھانا بہت لذیذ ہے۔ قلفی کہاں رک کر کھانی چاہئے۔ مکئی کے بھٹے۔ شکر قندی۔ کہاں بہتر ملے گی۔ موسم کے میوے کہاں کہاں دستیاب ہیں۔ ہم نے موسمبی کا جوس سرگودھے کے پاس، گریپ فروٹ(چکوترے) کا رس بالائی سندھ میں نوش جاں کیا۔

موٹر وے کا ذکر ہو تو تین بار وزیر اعظم رہنے والے چوتھی بار کے آرزو مند میاں نواز شریف کے لیے داد و تحسین کے جملے زباں پر آجاتے ہیں۔ تاریخ میں پاکستان میں موٹر وے کی ابتدا ان سے ہی منسوب رہے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ موٹر وے پر تو اکیسویں صدی آپ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلتی ہے۔ لیکن جہاں آپ کو موٹر وے سے اتر کر کسی گائوں یا شہر جانا ہو تو آپ بیسویں یا انیسویں صدی میں پہنچ جاتے ہیں۔پاکستان میں مسئلہ ہمیشہ ترجیحات کا رہا ہے۔ ٹیلی وژن کب آنا چاہئے تھا۔ پرائیویٹ ٹی وی چینل پہلے آنے چاہئیں تھے یا غربت پہلے دور ہونی چاہئے تھی۔ موٹر وے اب صرف اشرافیہ کے لیے نہیں ۔ تیز رفتار آرام دہ بسوں کے ذریعے عام پاکستانیوں کو بھی راحت پہنچارہی ہیں۔ موٹر وے بالکل غیر سیاسی ہیں۔ جبکہ جی ٹی روڈ۔ اور دوسری سڑکیں خالصتاً سیاسی۔ مذہبی۔ وہاں آپ کو سیاسی بینر۔ پرچم۔ مذہبی پوسٹر۔ بینر سب دکھائی دیتے ہیں۔ زندگی بھرپور۔ احتیاطی تدابیر سے پاک۔ موٹر وے پر آپ کو اصولوں کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔ وقت ضابطوں کے مطابق گزارنا پڑتا ہے۔ موٹر وے ہماری زندگی میں تبدیلیاں لارہے ہیں۔ ایک جدید معیار زندگی کی طرف لے جارہے ہیں۔ ان علاقوں میں تہذیبوں۔ ثقافتوں میں کشمکش صاف دکھائی دیتی ہے۔

موٹر وے پر جہاں جہاں وقفہ کرناہوتا ہے۔ وہاں اب قیام و طعام کی ساری سہولتیں ہیں۔ ایک ریسٹ ایریا میں ٹھہرنے کے لیے ایئر کنڈیشنڈ کمروں کی نوید بھی دی جارہی ہے۔ ان ایریاز کی مسجدیں بھی بہت خوبصورت ہیں۔ کھانے پینے کے سارے برانڈز ہیں۔ منافع خوری بھی زوروں پر ہے۔ بس کمی ہے تو مطالعہ گاہوں کی۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی اگر ان تمام آرام گاہوں میں ایک ایک اسٹڈی سینٹر بھی قائم کردے۔ جہاں اس علاقے کے بارے میں کتابیں۔ وڈیوز موجود ہوں۔ بلکہ ان کا تماشا جاری ہو۔ وہاں کی لوک کہانیاں۔ ادیبوں۔ شاعروں ۔ اساتذہ۔ فنکاروں۔ گلوکاروں کے قصّے ۔ہم اپنے علاقوں کے ثقافتی اثاثوں سے روشناس ہوں۔

ہمارے شہر اپنے طور پر تو آگے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن ترقی کی یہ رفتار وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔ یقیناً ہم کئی سال پیچھے ہیں۔ اس کی وجہ با اختیار بلدیاتی اداروں کا نہ ہونا ہے۔ شہروں میں مطلوبہ سہولتیں۔ معیاری ٹرانسپورٹ۔ علاج معالجے کے انتظامات نہیں ہیں۔ بلدیاتی انتخابات اگر تسلسل سے ہوتے رہیں۔ تو میونسپل کمیٹیاں خود ہی ان شہروں کے اندر کی سڑکوں کو بہترین بنادیں۔ ایم این اے۔ ایم پی اے ووٹ لینے کے بعد بھی اپنے علاقوں میں ٹھہریں۔ بلدیاتی ادارے۔ صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی کا اپنا نیٹ ورک ہو۔ جو شہروں کی ضروریات پر نظر رکھے۔ اس ترقی کو ایک سمت دے۔ ٹائون پلانرز کی اپنی ایسوسی ایشنیں بھی سالانہ جائزہ لیں۔ سونا اگلنے والی زمینیں ۔ رہائشی اسکیموں میں کسی غور و فکر کے بغیر تبدیل ہورہی ہیں۔ یہ خطرناک رجحان ہے۔

پانچ روز میں سے چار روز ہم پاکستان کی شاہراہوں پر رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اب 14قومی شاہراہیں ہیں۔ چار موٹر وے ۔ یہ سب کم از کم 12300 کلومیٹر کی مسافت طے کرتی ہیں۔ کراچی سے اسلام آباد 1600 کلومیٹر تو ہوں گے۔ لیکن اپنے وطن کی رونقیں، جفاکش ہم وطنوں کی پُر عزم پیشانیاں۔ اسکول آتے جاتے بچے بچیاں ۔ کپاس چنتی بہنیں۔ ہوٹل کے ویٹرز۔ مکینک۔ کھجوریں فروخت کرنے والے۔ اچھی دودھ پتی بنانے والے ان فاصلوں کا احساس نہیں ہونے دیتے۔ شاہراہیں صرف شہروں کو نہیں دلوں کو بھی ملاتی ہیں۔ کبھی نکل کر تو دیکھیں۔

تازہ ترین