• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دن گنے جاتے تھے جس دن کے لئے وہ آخر آہی گیا۔ ہم اس کے دامن پر خون کے دھبے دیکھ سکتے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات نے یوں تو خیر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں انتخابی مہم پر کافی اثر ڈالا لیکن اس مہم کے آخری دن، جمعرات کو ملتان میں یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کے اغوا نے امن و امان کے مسئلہ کو زیادہ تشویشناک بنادیا۔ یہ ڈر کہ انتخابات ہو بھی پائیں گے یا نہیں آخری وقت تک موجود رہا۔ بہرحال، تاریخ کے سلسلہ روز و شب کی تقویم میں آج کا دن ایسا ہے کہ جب ہمیں ایک خاص انداز میں اپنے عمل کا حساب دینا ہے۔…
آج کا دن جیسے بھی گزرے، اس کا سایہ آنے والے دنوں پر پڑے گا۔ پاکستان، جمہوریت کے اپنے سفر میں ایک نئے موڑ پر کھڑا ہے۔ انتخابی مہم کے تھم جانے اور آج پولنگ اسٹیشنوں کے دروازے کھلنے کے درمیان ہم میں سے بیشتر کو شاید یہ مہلت ملی ہو کہ ہم یہ دیکھیں اور یہ سوچیں کہ انتخابات سے ہمارا اپنا رشتہ کسی نوعیت کا ہے۔ ووٹ دینے کی اہمیت کو میڈیا نے اور سماجی اداروں نے اس دفعہ بڑی شدت سے اجاگر کیا ہے۔ فرد کے ذہن میں اس احساس کو جگانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ معاشرے کی تشکیل میں حصہ لے سکتا ہے۔ انتخابات کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ اس طرح ہم اپنے ہم خیال لوگوں سے ایک روح افزا تعلق قائم کرسکتے ہیں۔ یہ بھی ایک طرح کا جشن ہوتا ہے کہ جس میں شرکت سے خون کی گردش میں اضافہ ہو اور چند دنوں کے لئے ہماری وہ زندگی اپنا رخ موڑ لے جو عام طور پر فکر اور اندیشے کے حصار میں گزرتی ہے۔لیکن یہ انتخابات تو کوئی ایسا جشن نہیں تھے کہ جس کی توقع کی جانی چاہئے۔ جہاں بار بار ہمیں یہ بتایا گیا کہ ان انتخابات کی تاریخی اہمیت کیا ہے اور ان کا صاف شفاف ہونا ہمارے ملک کی بقاء کے لئے کتنا ضروری ہے، وہاں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس سے پہلے کبھی انتخابات میں دہشت گردوں کی شمولیت اتنی نمایاں نہیں تھی۔ پتہ نہیں یہ اچھی بات ہے یا خوفناک مضمرات کی حامل ہماری بے حسی کا شاخسانہ کہ ہم ایک کے بعد دوسرے دلخراش واقعے کو تھوڑی دیر کیلئے بریکنگ نیوز، بنانے کے بعد فراموش کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس فلمی ہیرو کی طرح جو زندگی کا ساتھ نبھانے کیلئے ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا۔ البتہ اگر ان حالات میں انتخابات کے ”فری اور فیئر“ ہونے کے بارے میں شکوک پیدا ہوئے تو یہ ہماری بدنصیبی ہوگی۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہم اب تک خالص دواؤں اور کھانے پینے کی چیزوں کی طرح، خالص انتخابات سے محروم ہی رہے ہیں۔ اس بار یقینا ایک بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ انتخابات شفاف ہوں۔ ایک ایسا الیکشن کمیشن موجود ہے جسکی غیرجانبداری کے بارے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔ قوانین میں بھی خاطر خواہ تبدیلی کی گئی ہے۔ یہ بھی کسی جادو سے کم نہیں کہ آپ اپنے موبائل فون کے ذریعے، پبلک جھپکتے میں اپنے ووٹ کی ’پرچی‘ دیکھ سکتے ہیں۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ان انتخابات کے بعد، جمہوریت پر ہمارے اعتماد میں اضافہ ہوپائے گا۔ دوسرے لفظوں میں، کیا انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت عوام کے دکھوں اور بدحالی کا علاج کرسکے گی۔ انتخابات کیسے بھی ہوں۔ کوئی بھی جماعت کتنی ہی سیٹیں لے۔ کسی کی توقعات پوری ہوں یا نہ ہوں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا پاکستان اس گرداب سے نکل پائے گا جس میں وہ اتنے دنوں سے گرفتار ہے۔ ایسے مبصر موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات کے ہونے سے حالات زیادہ خراب ہوجائیں گے اور مبصرین کی اکثریت مسلسل یہ کہتی رہی ہے کہ انتخابات کے نہ ہونے یا ملتوی ہونے سے ملک میں تباہی پھیل جائے گی۔ اس گفتگو کو ہم ایک اور سطح پر لے جائیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ جمہوریت کا مطلب انتخابات نہیں بلکہ یہ تو محض ایک دروازہ ہے جس کے ذریعے ہم جمہوریت کہ جس کے آئینی اقدامات تو قابل قدر تھے لیکن جس کی حکمرانی نے ہمیں بے حال کردیا۔ ان پانچ سالوں میں دہشت گردی اور انتہا پسندی میں اضافہ ہوا۔ معاشرے میں بے چینی اور عدم برداشت کی جڑیں گہری ہوئیں۔ فکری تضادات زیادہ زہریلے ہوگئے۔ تعصب اور فرقہ واریت کو فروغ ملا۔ جمہوریت کا پہلا جواز یہ ہے کہ عام لوگ خود کو آزاد اور محفوظ محسوس کریں اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو۔ اعداد وشمار ہمیں بتاتے ہیں کہ انسانی حقوق کی پامالی کی صورت حال تشویشناک ہوتی جارہی ہے۔ پرانی، قرون وسطیٰ کی پالی ہوئی رسومات نہ صرف زندہ ہیں بلکہ کئی حلقوں میں انہیں مقدس مانا جاتا ہے۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ طالبان نے نہ صرف ان جماعتوں کے خلاف جنہیں وہ لبرل اور ترقی پسند سمجھتے ہیں بلکہ خود جمہوریت کے خلاف ہتھیار اٹھالئے ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جس میں اسکولوں کو، خاص طور پر لڑکیوں کے اسکولوں کو بم کے دھماکوں سے اڑایا جاتا رہا ہے۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ کئی موضوعات پر بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔
اس پس منظر میں ، یہ شاید حیرت کی بات ہے کہ تقریباً ساری بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہیں اور انتخابی مہم میں وہ وعدے کئے گئے ہیں جن کا پورا ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ بھولے بھالے عوام کی توقعات کو اس حد تک ابھارا گیا ہے کہ ان کے پورا نہ ہونے کی صورت میں جمہوریت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اس وقت جو سیاسی جماعتیں یا رہنما عوام کی حمایت کے لئے کوشاں ہیں وہ جان بوجھ کر عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ نہ انتخابات میں اور نہ انسانی رشتوں میں، وعدے اکثر پورے نہیں ہوپاتے۔ لیکن اگر نیت صاف بھی ہو، صلاحیت اور زمینی حقائق کی بندشیں پہاڑوں کی مانند اس جمہوریت کے راستے میں حائل ہیں جس کی جستجو میں ہم اتنے زمانے سے سرگرداں ہیں۔ اپنا دل رکھنے کے لئے ہم یہ کہتے رہتے ہیں کہ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔ لیکن کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ ہم جتنا چلتے ہیں، وہ منزل ہم سے دور ہوتی جاتی ہے۔ خدا نہ کرے کہ کوئی یہ سمجھے کہ میں جمہوریت کا علمبردار نہیں ہوں۔ میری نظر میں تو جمہوریت ہی دراصل نظریہ پاکستان ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جن خیالات کی ہم پر حکمرانی رہی ہے اور جن کا منبع عسکری سوچ ہے وہ جمہوری اقدار کے منافی رہے ہیں۔ آج کے انتخابات اس لئے بہت اہم ہیں کہ ان سے ایک نئے جمہوری دور کے آغاز کی امید کی جارہی ہے۔ اگر یہ امید ٹوٹ گئی تو ہم پر ایک بڑا عذاب نازل ہوسکتا ہے۔ وہ لوگ جو یہ کہتے رہے ہیں کہ پاکستان کا معاشرہ جمہوریت کا اہل نہیں ہے اور اسے ایک سخت گیر حکمراں کی ضرورت ہے اپنی گفتگو میں مہاتیر محمد اور لی کو ان یو کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نے فوجی آمر بھی برداشت کئے ہیں۔
اب تک میں نے کسی مخصوص پارٹی یا رہنما کا ذکر نہیں کیا ہے۔ لیکن ایک تازہ واقعہ بیان کررہا ہوں جس سے موجودہ سیاست کی ایک اہم پیچیدگی کی عکاسی ہوتی ہے۔ میری بیوی صادقہ کلفٹن (کراچی) کے ایسے بازار میں خریداری کررہی تھی جہاں بیشتر پشتون دکاندار ہیں۔ ایک نوجوان دکاندار نے اس سے پوچھا کہ آپ کس کو ووٹ دیں گی۔ میری بیوی نے دکاندار کے ذہن کو کریدنے کے لئے یونہی کہہ دیا کہ میں تو اے این پی یعنی باچا خاں کی پارٹی کو ووٹ دوں گی۔ جواب ملا۔ ”اے این پی کو گولی مارو“ اور پھر اس نے عمران خان کو ووٹ دینے کا اعلان کیا۔ جب اس سے یہ کہا گیا کہ عمران خان تو طالبان کے دوست ہیں تو جواب ملا کہ طالبان میں کیا خرابی ہے۔ میں خود ایسے لوگوں سے ملا ہوں جو طالبان کی حمایت کرتے ہیں اور عمران خان کو ووٹ دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ ایک اتفاقیہ حادثے میں ان کے زخمی ہوجانے کے بعد ان سے ہمدردی کرنے والوں میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ نہ میں یہ جانتا ہوں کہ جن امیدواروں پر دہشت گرد حملہ کرتے ہیں ان کی حمایت یا مخالفت میں کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن میں تو اس دکاندار کا واقعہ سنا رہا تھا۔ اسے سن کر مجھے ان نوجوان، پڑھی لکھی اور کھاتے پیتے گھرانوں کی خواتین کا خیال آیا جو پرجوش انداز میں پوری دیانتداری کے ساتھ عمران خان کی پارٹی کے لئے کام کررہی ہیں۔ اب آپ اپنے تصور میں ان دو انتہاؤں کی تصویر بنالیں اور یہ سوچیں کہ بظاہر ایک ہی سمت میں رواں یہ دو دھارے دراصل ایک دوسرے سے الٹے رخ میں بہہ رہے ہیں۔ پاکستان میں ایک جنگ جاری ہے ان لوگوں کے درمیان جو ایک طرف طالبان کو پسند کرسکتے ہیں اور دوسری طرف ایک لبرل اور ترقی پسند نظریے کے حامی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آج کے انتخابات کا اس کشمکش پر کیا اثر پڑتا ہے۔
تازہ ترین