سرائیکی خطّہ یعنی ، ’’سرائیکستان‘‘ عظیم تہذیب وتمدّن کا گہوارہ ہے، جو معاشی طور پر پس ماندہ ضرور ہے ،لیکن ثقافتی تنوّع سے مالا مال ہے۔ اللہ کے وَلیوں اور شیریں زبان لوگوں کی پُرامن سرزمین ،جس نے دنیا جہاںکے مہاجروں کو سینے سے لگایااورحملہ آوروں کی ہمیشہ مذمّت کی حالاں کہ بیرونی حملہ آوروں نے بار بار اس خطّے کا امن لُوٹااور تاریخ کے اس جبر و استبدادکی وجہ سے سرائیکستان کی شیریں زبان میں دُکھ ، درد اور مونجھ (دکھ، درد، تنہائی، جبر و ستم، الم کا استعارہ)کی ایسی فصلیں اُگیں، جو نسل دَر نسل چل رہی ہیں۔
سرائیکی وسیب برّ ِصغیر کا وہ واحد خطّہ ہے، جس نے استحصالی قوّتوں کی وجہ سے صدیوں مونجھ کا طویل مزاحمتی سفر طے کیا اور اب بھی طاقتی مزاحمت سے گریزاں ہے۔ مو نجھ کی کالی چادر ایک طرف پھینکنے کا درس ایک صدی قبل ،حضرت خواجہ غلام فرید کے گھر سے ملنا شروع ہوا تھا ، جس کے بعد رفتہ رفتہ ہمارے دانش وَر وں،شا عر وں اورقلم کار وں نے اپنے لوگوں کے بارے میں سوچنا شروع کیااور مزاحمت کے لیے قلم ہی کو تلوار بنا لیا ۔تب ہی سرائیکی شاعری میں آج بھی ہماری ثقافتی پہچان کے مِٹتے خدّوخال واضح ہورہے ہیں۔ ماضی زندہ ہورہاہے، تو حال نسلِ نو کو منتقل ہو رہا ہے۔
سرائیکی کے مشہور شاعر،اشوؔلال نے فارسی جما لیاتی تراکیب رَد کرکےشاعری میں وسیبی حُسن شامل کر لیا ہے،تب ہی تو’’ چھیڑو ہتھ نہ مُرلی ‘‘ مَیں جبر کے خلاف مزاحمت اور قومی شعور ملتا ہے ،جب کہ رفعتؔ عباس کے مجموعے ’’ماں بولی دا باغ ‘‘میں نوآبادیاتی فکر کا گہرا اثر ہے ۔ مالک اُشتر جاگیر داریت ، سرمایہ دارانہ ذہنیت اور بیرونی حملہ آوروں کے خلاف اذانِ حق دے رہا ہے ؎ساڈی ڈاہ لکھ سال دی رادھی کوں…کوئی ڈاہ لکھ ڈاکو کھاون آئے…اساں اپنیا ں اکھیں نوٹ کراہیں… کے تئیں سر کپویسوں پئے۔ بقول اسلم جاوید؎تھل ہے قصّہ مونجھ دا… روہی عشق داناں۔یوں تووسیب کی مونجھ صدیوں پرانی ہے، مگر اسےاجاگر خواجہ غلام فرید ہی نے کیا۔بقول خواجہ غلام فرید ؎مونجھ فرید مزیدہمیشہ…اَج کل خوشیاں گھٹیاں۔؎ہُن واگاں وطن ولائیاں…لکھ مونجھ منجھاریاں آئیاں۔؎تانگیں تپایا مونجھیں مُسایا…سُو لیں ستایا نیڑے ہرایا۔؎جو ہجرہے عین وصال بنے…سارے سول سٹریے ساری مونجھ ٹلی۔
ویسے بھی وسیب کا ہر باسی اب اُمید اور مونجھ کی ایک عجیب کیفیت سے دوچارہے۔عاشق بزدا ر نے ہزاروں سال کی مونجھ کوزبان عطا کی ہے۔ آج کا مستعد اور باشعو ر نوجوان حسبِ استطاعت اپنی جداگانہ ثقافتی و تہذیبی شناخت اور قومی خدّو خال محفوظ کرنے کے لیےہر ممکن تگ و دَو کررہا ہے ، لیکن فیصلہ سازی کا اختیار اب بھی استحصالی قوّتوں کے پاس ہے ۔سرائیکی وسیب میں سرکاری ملازمتوں کا معاملہ ہو یا تھل دامان کی ترقّی کا، دھندی اور چولستان کی زمینوں کی بند ر بانٹ ہو ، یاجعلی ڈومیسائل سے نوکری کا حصول ، آبادکار وں کی طرف سے استحصال جاری ہے۔
وسیب میں شعور شناسی کاآغاز بزرگ شاعر ،مرید حُسین راز جتوئی نے کیا،جسے پھرفدا حُسین گاڈی، تاج لنگا، مظہر عارف، سلیم خان نیازی، ممتاز عاصم، صوفی تاج گوپانگ، حمید اصغر شاہین اور اکبر انصاری ،ڈاکٹر نخبہ لنگاہ رانا فراز اور شبیر لکھیسر نے آگے بڑھایا۔سرائیکی وسیب کے شاعروں ، دانش وَروں نے ابتدامیں علامتی تحریروں کا سہارا لیااور قریباً دو دَہائی بعد مزاحمت نگا ری تک آئے۔اب جب یہ بات اقتدار کی نچلی سطح یونین کاؤنسل، تحصیل ،ضلع ،کارپوریشن سے نکل کر ،صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی سے سینیٹ تک جا پہنچی ، تب کہیں جا کر سرائیکی صوبے کا کیس سیاسی ،انتظامی ،قانونی اور آئینی حدتک مضبوط ہواہےاوراب اس حقیقت سے پاکستان کی کسی ثقافتی ولسا نی اِکائی کی طرف سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سرائیکی وسیب کا اپنا ایک علیٰحدہ وجود ہے۔
ہم در اصل سرائیکی وسیب کی شاعری کا وہ پہلو اُجاگر کررہے ہیں، جس میں اپنے حقوق کی صدا بلند کی گئی ہے اور اُن حقوق کا لبّ ِ لباب سرائیکی صوبے کا مطالبہ ہے ۔آج سے قریباً پینتیس سال قبل احمد پور شرقیہ سے ایس کیو ایم کے پلیٹ فارم سے وسیب کے لیےایک نعرہ ’’جیون دا بس ایک منصوبہ، سرائیکی صو بہ ،سرائیکی صوبہ۔‘‘ سامنے آیاحالاں کہ سرائیکی زبان میںمزاحمتی شاعری کی بنیاد توحضرت خواجہ غلام فرید نے ایک صدی سے زائد عرصہ پہلے اپنے کلام کے ذریعے رکھ دی تھی کہ ؎’’ اپنی نگری آپ وساتوں پٹ انگریزی تھانے۔‘‘بعد میں خورشید بخاری، غیور بخاری ، اشو لال ، رفعت عباس، دلنور نورپوری، قیس فریدی، احمد خان طارق، رازش لیاقت پوری، اللہ بخش یاد، امان اللہ ارشد، مصطفٰی خادم ، وغیرہ نےاس مزاحمتی تسلسل کو آگے بڑھایا۔
انہوں نے اپنے کلا م کے ذریعے پیغام دیا کہ وہ چوں کہ علیٰحدہ ایک الگ تاریخی ،ثقافتی، لسانی و جغرافیائی حیثیت کے حامل ہیں، تو ایک الگ صوبہ اُن کا حق ہے۔ سرائیکی بولنے والےجو ہزاروں سال سے برّ ِصغیر کے باسی ہیں ، جب الگ تہذیب وتمدّن، تاریخ و ثقافت، زبان اور رسم ورواج رکھتے ہیں ،تو انہیں الگ قوم کیوں تسلیم نہیںکیا جاتا۔وسیب کے شعرا نے مونجھ کے سبب ہونے والے استحصال کے خلاف کیا خُوب منظر کشی کی ہے۔ شاہد عالم شاہدؔ کہتے ہیں؎مونجھ ، محکومیت ، جبر تے بکھ… معجزے ہن سبھے یار چُپ دے… کیا پچھدیں توں سسّی پنوں،ہیرسیال دے قصّے… آسوں پاسوں کھنڈے پئے ہن مونجھ ملا ل دےقصّے۔پھرعاشق صدقانی کے سرائیکی مجموعے ’’اساں گونگے نسے الا جانڈوں ـ ‘‘میں وسیب کے ساتھ برتے جانےوالے سلوک کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا گیا ہے ۔ ؎زندہ کر ضمیر کجھ سوچ سرائیکستان دا… بہوں کھٹیاکھا گھدے تیڈی گنگی زبان دا۔؎آخان وسیب دے حال ڈٹھے کر…دھدِڑ مٹی تھئے بال ڈٹھے کر…مونجھے چہر ے اپنی جاہ تے…گتے چنڑدے بال ڈٹھے کر۔ اسی طرح مشاعروں میں سفیر لاشاری کا یہ ترانہ بھی بہت مقبول ہوا۔؎سُٹ غفلت اکھیں کھول ذرا… تہذیب دیاں ٹھکریاں گول ذرا…ایں گالھ دیوچ کوئی لجھ کائنی… تیڈا سب کجھ ہے اوندا کجھ کائنی۔جب کہ رمضان شاہ گیلانی نے سرائیکیوں کے وسائل و حق غصب کرنے پر کچھ یوں اظہارکیا؎ساڈے فنڈتے ساڈے بجٹ…اُبھے آلے کھادی ویندن…اتھا ں بکھ ننگ رادھی ویندن۔ ؎ایویں اُبھے آلے ساڈے حق پے کھاسن…جڈا ں تیئں ساڈی حد برداری نی تھیندی۔؎نہ اسکول تے نہ ہے دوائی…ساڈی قسمت میٹر و بس اے…اُبھے آلالمے دیس دا…بجٹ ویندا سارا کھس اے۔
اسی طرح بہت سے شاعر وں نے بیرونی حملہ آوروں سے نفرت اور ظلم و ستم کی داستانوں کا اظہار چوپالوں میںقصّوں کی صُورت سُنا کر کیا اور زور للھل کے یہی قصّے وسیب کے باسیوں کو یادہو کر زبان زدِ عام ہو گئے ۔ سرائیکیوں کے خلاف اوپریت اور دھاڑ یل لوگوں کے ستم کا تسلسل اب بھی جا ری ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ اب تلوار ، برچھی ،بھالے کی جگہ کاغذ ،قلم نے لے لی ہے ۔ عزیز شاہد دورِ حاضر کے شاعر ہیں، وہ عوام کو سمجھانے کے لیےکہتے ہیں؎ پل دے پر کھ پرون و چو ں ہن چہرہ چہرہ چھانو… دُھر دے گنگے دھرتی دا سو پل دے پیر سنجانو۔ جب خطّے کا استحصال بڑھتا ہی گیا، تو سرائیکی دانش وَروں، شاعروں نے اپنے بھولے وسیب کو شعور و آگہی دیتے ہوئے علیحدہ صُوبے کا خواب دکھایا۔
اس وقت وسیب کا کو ئی شاعر ایسا نہیں ،جو سرائیکی صوبے کی بات نہ کر رہا ہو۔ شاکر شجاع آبادی سے لے کر مظفّر مسکین مزدورؔتک سب علیحدہ صوبے کے لیے بذریعہ قلم تحریک چلا رہے ہیں۔اب سرائیکی قوم مونجھ کی کیفیت سے نکل کر مزاحمت کرتی نظر آتی ہے ۔ ساحر رنگ پوری نے اپنی کتاب ’’وکھرا کر‘‘میں دوٹوک کہا ۔؎ساڈی کٹھیاں بالکل نیئں نبھد ی ہے، گالھ صفا ساکوں وکھرا کر۔ دلنوؔرنور پور ی مرحوم نے ساری زندگی سرائیکی صوبے کی بات کی۔
گلی گلی ،کُوچے کُوچے سرائیکی صوبے کے راگ الاپے۔ کاش وہ صوبے کی حمایت میں آج کی اس عروج چھوتی تحریک کودیکھ پاتے۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ ؎اج صوبہ ہے، کل صوبہ ہے…ہر ذہن اِچ پل پل صوبہ ہے…کوئی مسئلہ حل نی تھی سگدا… ہر مسئلے داحل صوبہ ہے۔ ظفر مسکین مزدورؔ کہتے ہیں ؎انج صوبہ ساڈا حق ہے…ہر حال اساں ایہ گھنسوں۔
ملک جاوید سندھڑ ،ا لمعروف جاوید شانی نے اپنے شعری کتابچے ’’چلو چلو سرائیکستاں چلو‘‘میں سرائیکی صوبے کے مطالبے کے لیےایک ترانہ تخلیق کیا ،جو عموماًصوبہ مطالبہ پارٹیوں کے جلوسوں میں بھی گایا جاتا ہے۔؎حق دی گالھ اے، حق دا نعرہ کھل کے لانونا اے…یار سرائیکی صوبہ اساں گِھن کے را ہونا اے۔
اسی طرحمنیرن بلوچ نویں انقلابی شاعر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ؎ساڈے ظرف ضمیر وکاء کائنی کوئی تھنیدے بے شک رنج تھیوے…ساکوں موت منیرن منظور اے، پر سرائیکی صوبہ انج تھیوے۔سرائیکی وسیب کے دانش وَر، کالم نگار جام ایم ڈی گانگا اپنی نظم میں کہتے ہیں؎اساں جیون چہندوں…پنجاب توں انج تھیون چہندوں…ساکوں جیون ڈیوو…ساکوں انج تھیون ڈیوو۔عاشق صدقانی نے بھی کیا خُوب کہا ؎کے تیئں بلدی دھپ اچ راہسیں…رات اندھاری گپ اچ راہسیں…مار سرائیکستان دا نعرہ…کے تئیں سرائیکی چپ اچ راہسیں۔ ؎کیوں کہیں ذات اِچ ضم تھیووں…ساڈی اپنی ہک پہچان ہووے… ہووے صوبہ تر یہو ی 23ضلعیاں دا… جینداں ناں سرائیکستان ہووے۔
اسی طرح رمضان احسن اپنے ڈوہرے میں سرائیکی صوبہ مانگنے کا الگ انداز اپناتے ہیں ۔؎ساڈی ہے اپیل اسمبلی وچ ،ہن شام نہ تھیوے صوبہ ڈیو…کوئی ٹال مٹول اچ نہ رکھ ساکوں ساڈے لب نہ سیوے صوبہ ڈیو…ساڈے یار سرائیکی وسیب دیوچ سکھی ہر کوئی جیوے صوبہ ڈیو…ساڈی احسن قوم سرائیکی دا کوئی خون نہ پیوے صوبہ ڈیو۔بشیر غم خوار اپنے مطالبے کو پنجاب پانچ دریائوں سے مشروط کرتے ہوئےکہتے ہیں؎جیڑھے مُلک اِچ پنج دریا واہندن…اوندا پنجواں صوبہ چک پیندے؟اورخادم حُسین مخفی عرف چھیڑے خان سرائیکی صوبے کا حتمی جواز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎سرائیکستان دا مطلب ایہوتاں ہے فقط مخفیؔ…سرائیکستان وچ لگسی سرائیکستان دی دولت۔قصّہ مختصر ،سرائیکیوں کے صدیوں کے دکھ ،درد و تنہائی کا استعارہ،مونجھ اب وسیب باسیوں کے سامنے اُمید کے گہنے پہن کر محوِرقص ہے ۔ جس طرح بارش ،روہی کی ریت پر رقص کرتی ہے ،تو پیاسی روہی جھوم جھوم جاتی ہے، یقیناً سرائیکی صوبے کے قیام کے بعد پورے وسیب کا بھی وہی حال ہوگا ،جوبارش میں ریت کا ہوتا ہے۔