دسمبر کے پُھول…
محمّد علی جناح نے سگریٹ پیکٹ سے نکالا، ہونٹوں سے لگایا اور پھر اُسے سلگایا۔ ویران کمرے کی فضا میں دھواں پہلا کش لیتے ہی پھیل گیا۔ ان کا منطقی اور قانونی ذہن پہلے ہی دھواں دھواں ہو رہا تھا۔ رتی سےملے ہفتوں گزر چُکے تھے۔ تنہائی اُنھیں ستارہی تھی۔ رتی کوجتنابُھلانے کی کوشش کرتے، وہ اُتنی ہی زیادہ یاد آتی۔ لیکن وہ کر بھی کیاسکتے تھے۔ سامنے میز پر اللہ کی آخری کتاب رکھی تھی، اُس کاانگریزی ترجمہ، عبداللہ یوسف علی نے کیا تھا۔ دراصل جب اُن کے ذہن میں یہ سوال گونجا تھا کہ ’’میرا مذہب کیا ہے؟‘‘ تو اُنھیں اس کا کوئی جواب نہیں مِلا تھا کہ جانتے تھے کہ انھوں نےایک مسلمان مگراسماعیلی خوجہ گھرانے میں آنکھ کھولی ہے۔
سر آغا خان اس فرقے کے روحانی سربراہ ہیں، جن سے وہ کئی بار مل چُکے تھے، لیکن ہم فرقہ ہونے کے باوجود کبھی سر آغا خان سے اپنی عقیدت و احترام کا اظہار نہیں کیا تھا۔ تب تک مذہب اُن کے لیےکوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ یہ ٹھیک ہےکہ لنکنزاِن میں داخلہ لینےکا فیصلہ انھوں نےاِسی لیے کیا تھا کہ یہاں آنحضرت ﷺ کو دنیا کے عظیم قانون سازوں کی صف اوّل میں جگہ دی گئی تھی۔ اور اس بات کا علم ہونے کے بعد پہلی مرتبہ اُن کا سر فخر سے بلند ہوا تھا کہ وہ اور اُن کا گھرانہ مذہب اسلام کا پیروکار ہے، اُن نبی ﷺ کا پیروکار، جن کی عزّت انگریز کا اتنا بڑا، باوقار اور اعلیٰ تعلیمی ادارہ بھی کرتاہے، نہ صرف کرتا ہے بلکہ اس کےاعلان و اقرار میں بھی جھجکتانہیں ہے۔ اس سے ان کے دل میں انگریزوں کی وسعت قلبی اور کشادہ نظری کا بھی عمدہ نقش اُبھرا۔
انھوں نےسوچا کہ انگریزوں کی ترقّی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ حقیقت کا اعتراف کرنےمیں تنگ دلی، تنگ نظری کامظاہرہ نہیں کرتے۔ انھوں نے سوچا تھا کہ آئندہ زندگی میں اگر انھیں بھی ترقّی کرنی اور آگے بڑھنا ہے، تو وہ تنگ نظری اور تنگ دلی کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیں گے۔ اور ہندوستان آکر انھوں نے یہی کیا۔ کانگریس میں شامل ہوگئے، یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ مسلمان کانگریس کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے، اسے مسلم دشمن جماعت سمجھتے ہیں۔ انھوں نےوجہ جاننے کی کوشش کی، تو بتایا گیا کہ مسلمانوں کےعظیم مصلح، رہنماسرسیّد احمد خان نے مسلمانوں کو اس جماعت کے قریب جانے سے روک دیا تھا اور مسلمان آج تک اُن ہی کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ مگر محمّد علی جناح اس بات سے متاثر نہیں ہوئے۔
تقسیمِ بنگال کا واقعہ پیش آیا تو اُنھیں پہلی بارمعلوم ہواکہ سرسیّدنے مسلمانوں کو کانگریس میں شامل ہونےسے کیوں روکا تھا؟ کیوں کہ کانگریس بھی تقسیمِ بنگال کی مخالف تھی اور انگریز گورنر جنرل، لارڈ کرزن پر دبائو ڈال رہی تھی کہ تقسیمِ بنگال کے فیصلے کو منسوخ کر دیں۔ جناح نےاس تنازعےمیں حصّہ نہیں لیا۔ وہ خاموشی سے یہ تماشا دیکھتے رہے، پھر جب مسلم لیگ کےقیام کا اعلان ہوا تو بھی وہ اس کارروائی میں شریک نہیں ہوئے، لیکن اُنھیں یہ اطمینان ضرور ہوا کہ مسلمان رہنمائوں نےایک اچھافیصلہ کیاہے۔
لیکن اس فیصلے سےعملاً وہ الگ تھلگ ہی رہے کہ ان کا خیال تھاکہ کمیونل بنیادوں پرسیاست انگریزوں کو تو سُوٹ کرے گی لیکن اس سے ہندوستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اورالجھ جائےگا۔ خلافت تحریک سے بھی اُنھیں کچھ زیادہ دل چسپی نہیں تھی بلکہ انھوں نے گاندھی جی کو اس حوالے سے ٹوکا تھا اور کہا تھا کہ وہ سیاست میں مذہب کو لاکر ایک خطرناک کھیل شروع کرچُکےہیں، جس کے نتائج ہندوستان کے حق میں اچھے نہیں نکلیں گے۔
الگ راہ کا انتخاب
اور …پھر وہی ہوا، جذباتیت میں مسلمانوں کے ہزارہا خاندان برباد ہوگئے کہ جب مذہبی رہنمائوں نے ہندوستان کو دارلحرب قرار دے دیا تو بےشمار خاندان اپنی جائیداد، کاروبار، نوکریاں چھوڑ چھاڑ کر افغانستان کی طرف نکل گئے، اس امید پر کہ وہاں مسلمانوں کی حکمرانی ہے، وہاں ضرور پناہ مل جائے گی اور وہ وہاں بہت آسانی سے اپنے مذہبی شعائر پر عمل کر سکیں گے۔ گائوکشی پر پابندی نہ ہوگی، عین نماز کے وقت مسجدوں کے سامنے ڈھول بجا بجا کر مسلمانوں کی عبادت میں خلل نہیں ڈالا جائے گا۔ لیکن ابھی کچھ ہی خاندان افغانستان کی سرحدوں میں داخل ہوئے تھے کہ سرحدیں بند کر دی گئیں اور آئندہ کسی مسلم خاندان کے وہاں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔
چناں چہ وہ سارے مسلمان، جو اپنے بیوی بچّوں کے ساتھ اپنی ساری کشتیاں جلا کر وہاں آگئے تھے، وہیں سرحدوں پہ پڑ رہے۔ اورجناح کےخیال میں مسلمانوں پریہ تباہی سیاست میں مذہب کی آمیزش کا نتیجہ تھی، جس کےذمّےداران گاندھی جی کےساتھ مسلمانوں کے ناسمجھ اور بےبصیرت رہنمابھی تھے۔ جناح نے پہلے ہی خبردار کردیا تھا، لیکن اُس وقت تک مسلمانوں میں اُن کی حیثیت کچھ خاص نہ تھی۔ وہ کانگریس میں شامل تھے اور شامل رہ کر بھی انھوں نے لیجیسلیٹیو کائونسل کے ممبر کی حیثیت سے وقف (علی الاولادFR 7 )کا مسئلہ وہاں اٹھایا تھا اور کام یابی بھی حاصل کی تھی۔پہلی بارعلامہ شبلی نعمانی اور مسلمانوں کے دیگر زعماء کو امید بندھ چلی تھی کہ لیجیسلیٹیو کائو نسل میں کوئی اُن کے حقوق و مفادات کی آواز اُٹھانے والا بھی ہے۔
حالاں کہ جناح نے اگر ایسا کیا تھا تو مسلمان ذہن یاکسی عصبیت میں مبتلا ہو کے نہیں کیا تھا۔ وہ ہمیشہ سے ان عصبیتوں سے بلندتر تھے، وہ شروع سےناانصافیوں کے خلاف اور بنیادی انسانی حقوق کے قائل اورحامی تھے۔ انھوں نے کانگریس میں شامل ہوتے ہوئے بھی سوچ رکھا تھا کہ وہ کبھی فرقہ ورانہ سیاست کاحصّہ نہیں بنیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ جہاں وہ ایک طرف مسلمانوں کو اُن کےحقوق دیے جانے کے پُرجوش حامی تھے، تو دوسری طرف ہندوئوں کو بھی حقوق و مراعات کے ساتھ جینے کا حق دینے کےبھرپور قائل تھے۔ چناں چہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہندوئوں کے انتہائی متعصب لیڈر، بال گنگا دھر تِلک مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں اورانھوں نےہی ہندوستان میں فرقہ پرستانہ سیاست کی بنیاد رکھی ہے، جب تِلک کے خلاف انگریز حکومت نے مقدمہ قائم کیا تو جناح ہی تھے، جو تِلک کے وکیل کی حیثیت سے عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور اتنی محنت و لیاقت سے اُن کا دفاع کیاکہ انگریز جج بھی تِلک کےحق میں فیصلہ دینے پر مجبور ہوگیا۔
بعد کے دنوں میں بھی جب وہ مسلمانوں کے وکیل بن گئے اور اُن کے حقوق کا مقدمہ لڑنے لگے، انھوں نے گاندھی اور نہرو پر تو کُھل کرتنقید کی، لیکن تِلک کو کبھی تنقید و اعتراض کا نشانہ نہیں بنایا۔ صرف اس لیے کہ ان کے خیال میں تِلک منافق نہیں تھے۔ وہ جیسے اندر سے تھے، ویسے ہی باہر بھی تھے۔ گاندھی اور نہرو کی طرح اُن کی پالیسی دوغلی نہیں تھی کہ اصلاً تو وہ ہندوئوں کی نجات اور ترقّی چاہتے تھے لیکن ظاہراً مسلمانوں کو بھی لارے لپے دیتے رہتے تھے تاکہ مسلمان ان پر اعتماد کرکے کانگریس میں شامل ہو جائیں اور پھر کانگریس اُن کے ساتھ جو سلوک چاہے کرے۔
مذہب سے متعلق غورو فکر
محمّد علی جناح کانگریس میں نہ جاتے، ہندو لیڈروں کو قریب سے نہ دیکھتے اور انھیں، اُن کے ذہن پڑھنے کا موقع نہ مل پاتا تو وہ کبھی ’’فرقہ پرست‘‘ نہ کہلاتے۔ اور پھر… محترمہ اجیت جاوید جیسی محقّقہ کو کبھی ’’وطن پرست اور سیکولر جناح‘‘ جیسی کتاب لکھنے کی ضرورت بھی نہ پڑتی اور نہ مسٹر ایم سی چھاگلہ کو Roses in December میں یہ بتانا پڑتا کہ اُنھیں کیوں جناح کی تواضع،مدارات اور حُسنِ سلوک کے باوجود اُن کا ساتھ چھوڑنا پڑا۔ صرف اس لیےکہ سیکولر جناح کمیونل ہوگئےتھے۔
جناح فرقہ پرست یا کمیونل ہوئے تو اس لیےکہ مذہب پہلےکبھی اُن کا مسئلہ تھا ہی نہیں۔ پہلی بار قدرت نے رتی کی محبّت کے بہانے اُنھیں اس موڑ پر لاکھڑا کیا تھا کہ جہاں وہ ان سوالات سے متعلق سوچنے پہ مجبور ہوگئے تھے کہ ’’مذہب کا انسانی زندگی میں کتنا حصّہ ہے؟‘‘ اور یہ کہ ’’مذہب ہے کیا؟ وہ انسان سے کیا چاہتا ہے؟‘‘ ’’کیا مذہب کا مقصد محض خدا کی عبادت کرناہے؟ یا جو زندگی انسان گزارتا ہے، اُس کاہر لمحہ، ہر ساعت بھی عبادت ہے، اگر انسان اُسے خدا کی مرضی سے گزارے۔ مگر خدا کی مرضی کیا ہے؟‘‘ یہ بات کیسے معلوم کی جاسکتی ہے۔ تب جناح کو پہلی بار یہ احساس ہوا کہ اللہ نے انسانوں کے لیے اپنے صحائف بھی نازل کیے ہیں، توریت، زبور، انجیل اور قرآن… اللہ کے نازل کیے ہوئے صحائف… تو کیا مجھے ان کا مطالعہ کرنا چاہیے؟ ہاں مطالعہ کیے بغیر مجھے کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ اللہ انسان سے کیا چاہتا ہے؟ تب انھوں نے سوچا کہ رسول اللہﷺ کی اُمّت پر اللہ نے جو کتاب نازل کی، مجھے اُسے پڑھنا چاہیے۔
تلاوت نہیں کرنی، اُسے پڑھنا چاہیے۔ تلاوت تو ثواب اور نجات کے لیے کی جاتی ہے اور پڑھا اس لیے جاتا ہے کہ اللہ سے تعلق پیدا ہو، پڑھنے والے پر اللہ کی مرضی آشکار ہو۔ (ایسا نہیں تھا کہ جناح نے اس واقعے سے پہلے قرآن کا مطالعہ نہیں کیا تھا۔ وقف علی الاولاد کے مسئلے پر قرآنی حکم جاننےکے لیے بے شک انھوں نے قرآن پاک کا مطالعہ کیا تھا۔ لیکن وہ ایک قانونی ضرورت تھی اور اب یہ ذاتی یا یوں کہہ لیجیے کہ روحانی ضرورت تھی)تب انھوں نے عبداللہ یوسف علی کاترجمۂ قرآن حاصل کیااور اسے پڑھنا شروع کردیا۔ وہ جیسے جیسے قرآن کا ترجمہ پڑھتے جاتے تھے، اُن کو اپنا وجود پگھلتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ کئی بار تو ایسا ہوا کہ وہ ترجمہ بند کرکے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیتے تھے، اُن کا پورا بدن زور زور سے ہلنے اور جھٹکے کھانے لگتا تھا۔ جیسے وہ اپنے آنسوئوں کو پلکوں پر آنے سے روکنا چاہتے ہوں۔
جب طبیعت سنبھل جاتی توپھر ترجمۂ قرآن کھول لیتے اور پڑھنے لگتے۔ وہ جسے قلبِ ماہیت ہونا کہتے ہیں، تو وہی ہوا جناح کے ساتھ کہ ان کے تو دل کی حالت ہی بدل گئی۔ اُنھیں خدا کے وجود اور وحدت پر یقینِ کامل ہونے لگا۔ دوسرے لفظوں میں سیکولر مسٹر جناح، ایک مذہبی جناح میں تبدیل ہو رہے تھے۔ حضرت موسیٰؑ کے بارے میں کہا جاتاہے کہ آگ لینے گئے تھے اور پیمبری مل گئی۔ تو جناح کے ساتھ بھی کیا ہوا۔ وہ تو رتی کو پانے کے لیےقرآن پاک کی طرف آئے تھے یا لائے گئے تھے (اللہ ہی جانتاہے)کہ اُن دونوں کےملاپ کی راہ میں مذہب ہی تو رکاوٹ بن گیاتھا،لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہوگیا۔ قرآن نے اپنا اثر دکھا دیا تو جناح کے دل میں خیال آیا کہ مسلمانوں کی تاریخ پڑھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ اسلام اور رسول اللہﷺ کی بابت بالکل لاعلم تھے۔ لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے انھوں نے رسول اللہﷺ کی سیرت کا مطالعہ کیا تھا۔ لیکن اب وہ نئے سرے سے، ایک نئے نقطۂِ نظر سے اسلامی تاریخ کو پڑھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنی لائبریری کا جائزہ لیا تو انھیں فلپ اے حتیٰ کہ ’’تاریخِ عرب‘‘ مل گئی۔ انھوں نے اسے توجّہ سےپڑھا۔ اس مطالعے سےمزید مطالعے کی خواہش پیدا ہوئی، تو کتب خانوں کا رُخ کیا۔ وہ اب تک زیادہ ترقانون کی کتابوں ہی کا مطالعہ کرتے رہے تھے، قانون اور سیاسیات کی کتابوں کا۔ لندن میں انھوں نے عظیم حکمرانوں کی سوانح اور ان کے طرز حکمرانی پر کتابیں پڑھی تھیں، جن میں مسلمان بادشاہوں اور سلاطین کی داستانیں بھی تھیں، لیکن وہ اُن سے کچھ متاثر ضرور ہوئے تھے مگرمغلوب نہیں۔ البتہ شیکسپیئر کےڈرامے’’جولیس سیزر‘‘ کے کردار نے اُنھیں اتھاہ گہرائی میں پہنچا دیا تھا۔
خصوصاً اُس وقت جب بروٹس کی بے وفائی پر اس نے یہ دل گداز فقرہ ادا کیا"You too Brutus!" یہ فقرہ برچھی کی طرح اُن کے دل کے اندر کُھب گیا تھا۔ انسان اتنا بےوفا بھی ہوسکتا ہے؟ یہ ان پر پہلی بار کُھلا تھا۔ وفا اور بے وفائی پر انھوں نے پہلی بار غور کیا تھا اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ انسانی کردار کا اصل زیور وفا اور وفاداری ہے۔ اُسےکسی حال میں بےوفائی کا مرتکب نہیں ہونا چاہیے۔ چاہے معاملہ عورت کا ہو یا قوم و مُلک کا۔ اُن کی زندگی میں وفا اور وفاداری کا جو ایک واضح پہلو نظر آتا ہےکہ انھوں نے کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا اور کسی سے دھوکا نہیں کھایا تو وہ دراصل شیکسپیئر کے قلم سے اور سیزر کے مُنہ سے نکلا ہوا یہ کلمہ ہی تھا کہ ’’بروٹس تُم بھی…!‘‘
یعنی دنیا بے وفا لوگوں سے بَھری ہوئی ہے لیکن بروٹس تم تو وفادار تھے تم بھی بے وفا نکلے… تو انسان ایسا بھی کر سکتا ہے کہ وفا کا لبادہ اوڑھ کر بےوفائی کرے۔ یہ کیا ہے؟ منافقت، مکّاری، دھوکا بازی…نہیں صرف اتنا ہی نہیں، یہ اُس سے آگے بھی کچھ ہے۔ کیا ہے؟ یہ وہ نہیں جان سکے تھے لیکن اس مکالمے کا اُن کی شخصیت پر گہرا اثر ہوا۔ بات فقط اتنی ہے کہ آدمی کو بدلنے کے لے موٹی موٹی کتابوں اور سنہرے اقوال ہی کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ کسی کا دل ان سے بدلتا ہے۔
انسان بدلتا ہے تو بس ایک لمحے،ایک ساعت میں… اورجب تک وہ لمحہ آن نہ پہنچے، آدمی اُسی لمحے کی تلاش میں پڑھتا رہتا ہے، بولتا رہتا ہے، سوچتا رہتا ہے۔ ارادے باندھتا اور توڑتا رہتا ہے…اور جب وہ لمحہ آجاتا ہے تو ایک فقرہ، ایک کلمہ، چھوٹا ساایک واقعہ ، اس کےسارے وجود پر زلزلہ سا طاری کردیتا ہے۔ وہ ایک وجودی بحران میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ شخصیت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے، وہ اوور کوٹ جو اسے ماحول، تعلیم و تربیت اور دوسروں کے روّیوں نے پہنایا ہوتا ہے، وہ یک دَم ہی اُتر جاتا ہے اور اندر سے وہ ذات نکل آتی ہے، جس پر اللہ نے اُسے خلق کیا ہوتا ہے۔ محمّد علی جناح کے ساتھ بھی بعینہ ایسا ہوا۔
بھنور میں جناح
ہاں، جناح کئی مرحلوں میں بدلے۔ سُوٹ سے شیروانی تک، جناح سے قائد اعظم بننے تک۔ اُن کی زندگی میں بہت سے موڑ، بہت سے مرحلے آئے۔ لیکن اس کی ابتدا رتی کی محبّت میں مبتلا ہونے کے بعد ہی ہوئی۔ بڑی عجیب سی بات ہے۔ ایسی سیلابی، طوفانی محبّت کوئی شاعر، کوئی گلوکار یا کوئی فن کار کرے تو عقل مبتلائے حیرت نہ ہو۔
یہ محبّت کی بھی تو کس نے، اس نے جسے عورت ذات سے کبھی دل چسپی ہی نہ رہی ہو، کتنی ہی عورتوں کے دل کے دروازے کھُلےہوں اور اس نے مُنہ پھیرلیاہو۔ کبھی اپنی روایات اور اخلاقیات کی وجہ سے اور کبھی اس وجہ سے کہ عورت سے ایسا تعلق قائم کرنا محض وقت اور توانائی کا زیاں تھا۔ (جاری ہے)