• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لوگ فقیر سے پوچھتے ہیں کہ سرکار نے اپنے دور حکومت کے دو ڈھائی برس کیسے ضائع کردیے؟ تبدیلی کی ’’ت‘‘ بھی کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ یہ سب کیسے ہوا؟

اب آپ فقیر کا جواب سن لیجئے۔ ذرا دھیان سے سنیے گا۔ آپ جب بھی کسی ایسے کام میں الجھ جاتے ہیں، جو کام آپ کے بس کا نہیں ہوتا، تب آپ کسی کام کے نہیں رہتے۔ آپ بیش بہا وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ ضائع کردیتے ہیں۔ اگر آپ جانوروں کے ڈاکٹر ہیں، تو پھر آپ خود کو جانوروں کے علاج تک محدود رکھیں۔ انسانوں کا علاج کرنا آپ کے بس کی بات نہیں ہے۔ اگر آپ انسانوں کے امراض کا علاج کرنے والے ڈاکٹر ہیں، تو پھر آپ انسانوں کےعلاج تک خود کو محدود رکھیں۔ انجینئر بننے کی غلطی مت کریں۔ بند مشینیں چلانا آپ کا کام نہیں ہے۔ آپ زندگی بھر کرکٹ کھیلتے رہے ہیں۔ اس عمر میں آپ باکسر نہیں بن سکتے۔ باکسنگ آپ کے بس کا کھیل نہیں ہے۔ اگر آپ نے باکسر بننے کی غلطی کی تو پھر آپ ناک آئوٹ ہوجائیں گے۔ چاروں شانے چت ہوجائیں گے۔ آپ اپنی مدت کے ابتدائی دو ڈھائی برسوں میں وہ کام کرتے رہے ہیں، جو کام آپ کے بس کا نہیں تھا۔ وہ کام آپ کے کرنے کا نہیں تھا۔ چور، ڈاکو پکڑنا آپ کا کام نہیں ہے۔ اس کام کے لئے پولیس، سی آئی ڈی، ایف آئی اے ، خفیہ ادارے ہیں۔ آپ اِن اداروں کے سربراہ نہیں ہیں۔ آپ سرکار ملک کے سربراہ ہیں۔ دن میں دس ہزار مرتبہ چلا چلا کر کہنا کہ ’’میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ آپ کے چاہنے والوں کو اچھا نہیں لگتا۔ بیس تیس برس آپ نے بےسود سیاست کی نذر کردیے مگر آج بھی لوگ آپ کو سیاست داں کی بجائے کرکٹ کھلاڑی کے طور پر اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ جنرل حمید گل نے آپ کو سیاست کی ڈگر پر ڈال کر ملک کو ایک اعلیٰ سوشل رفارمر سے محروم کردیا۔ فقیر کو حیرت ہے کہ یہ سب باتیں نٹ کھٹ ایڈوائزروں نے آپ کو کیوں نہیں بتائیں؟

میں آپ کا نٹ کھٹ ایڈوائزر نہیں ہوں۔ میں آپ سے تنخواہ نہیں لیتا۔ اس لئے مفت میں مشورے دیتا ہوں۔ میرا مشورہ ہے سرکار کہ آپ، اپنے آپ کو ملک کا سربراہ سمجھیں اور ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘، والے سینڈروم سے نکل آئیں۔ فقیر کو ڈر ہے کہ کسی روز آپ سرکار سپریم کورٹ جاکر چیف جسٹس کی مسند پر نہ بیٹھ جائیں اورلوگوں کو سزائیں سنانا شروع کردیں اور میز پر ہیمرمار مار کر کہتے رہیں ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔

میں آپ کو سرکار مفت مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اپنے سوشل رفارمر اور ملک میں تبدیلی لے آنے کے دعوےکی طرف لوٹ آئیں۔ آپ اپنے دور حکومت کے باقی ماندہ برسوں میں ملک میں یادگار تبدیلیاں لاسکتے ہیں۔ فہرست لمبی ہے۔ میں صرف گنتی کے چند ناسوروں کی طرف آپ سرکار کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ اِن بظاہر ناقابلِ علاج ناسوروں نے ملک کو کمزور، ناتواںاور مستقل مریض بنادیا ہے۔

ناسور نمبر ون۔ پاکستان میں کروڑوں لوگ روزانہ محنت مزدوری کرکے دو وقت کی روزی کماتے ہیں اور آنے والا کل ڈگمگاتی امید پر چھوڑ دیتے ہیں۔ رات گئے تک ریڑھیوں پر سبزی، گنڈیریاں، مونگ پھلی، پرانے کپڑے اور پرانے جوتے بیچتے پھرتے ہیں۔ اگر دوسرے دن ہڑتال ہوجائے، دھرنا دینے والے روڈ راستے بند کردیں، تو ایسے میں کروڑوں لوگ دوسرا دن فاقوں میں گزارتے ہیں۔ خفیہ طریقوں سے لوٹ مار کرنے والی مافیا کے لوگ مر مر کر جینے والوں کو بھی نہیں بخشتے۔ اِن مسکینوں سے تین طرح کا بھتہ وصول کرتے ہیں۔ روزانہ بھتہ، ہفتہ وار بھتہ، ماہوار بھتہ۔ اِن لاوارثوں سے روزانہ، ہفتہ وار اور ماہانہ کروڑوں روپے اینٹھے جاتے ہیں اور وصولی کے بعد مافیا کے خفیہ کرتائوں دھرتائوں تک بھاری بھرکم رقم پہنچائی جاتی ہے۔ روزِ اول سے، انیس سو سینتالیس سے یہ گھنائونا جرم سرزد ہورہا ہے۔ حکمراں آتے ہیں، رخصت ہو جاتے ہیں مگر ملک کے کروڑوں مسکین لوگوں کو طاقتور بھتہ مافیا سے نجات نہیں دلوا سکتے۔ آپ کچھ کریں سرکار۔ خفیہ اداروں کی مدد سے آپ بھتہ مافیا کے خفیہ سرداروں تک پہنچ سکتے ہیں۔ تبدیلی لے آئیں سرکار۔ آپ پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ آپ بھتہ مافیا کا قلع قمع کرکے روزی روٹی کے لئے گلی کوچوں میں دھکے کھانے والے کروڑوں لوگوں کو بھتہ خوروں کے عذاب سے نجات دلوائیں۔ یقین جانیے ایک جست میں آپ ریاست مدینہ کی دہلیز تک پہنچ جائیں گے۔ اس سے بڑی تبدیلی لے آنے کا آپ تصور تک نہیں کر سکتے۔

آپ سیاست دانوں کو اقتدار میں آنے، اقتدار سے چپکے رہنے کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا۔ ملک خوفناک مافیائوں کے ہتھے چڑھ چکا ہے۔ صرف کرپٹ لوگ کالا دھن باہر نہیں بھیجتے۔ محنت اور ایمانداری سے کمانے والے بھی اپنی جمع پونجی باہر بھیج رہے ہیں۔ ان کو ڈر ہے کہ مافیائوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے معاشرے میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ آنے والے منگل کے روز میں آپ سرکار کو ایک اور بھیانک مافیا کے بارے میں آگاہ کروں گا۔

تازہ ترین