• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گیارہ جماعتی اپوزیشن اتحاد، پی ڈی ایم نے جان لیوا عالمی وبا میں بھی جلسے جلوسوں کا جو ملک گیر سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، یہ جمہوری تحریک ہے نہ کوئی قابلِ فہم خصوصی مطالبات منوانے کی سیاسی جدوجہد۔ حقیقتاً یہ ماضی کے برعکس پہلے سے تسلسل پکڑتے لیکن ہنوز بیمار جمہوری عمل کو معطل کر کے حکومت اکھاڑنے کی مہم جوئی ہے جس کا کوئی حاصل قوم و ملک کے لئے تو واضح نہیں تاہم متحدہ اپوزیشن کی موروثی جواں، بوڑھی اجتماعی قیادت، وہ سیاسی فوائد بھی حاصل کرتی نظر نہیں آ رہی، جسے اپوزیشن کھل کھلا کر واضح کرنے کی پوزیشن میں نہیں، تاہم ان کے پس پردہ ایجنڈے کی وضاحت وزیراعظم اپنے تئیں تواتر سے کر رہے ہیں۔ اُن کا اپوزیشن پر الزام بہت واضح ہے کہ پی ڈی ایم کی ساری مہم جوئی پی ڈی ایم کی نمایاں قیادت کو احتسابی عمل سے بچانے کے لئے ہے، جس کے لئے وہ سابق صدر مشرف جیسا دیا گیا وہ این آر او مانگ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ن لیگ اور پی پی اور ن لیگ کے خود ساختہ یا کئے گئے جلا وطن قائدین اور ان کے کرپٹ حکومتی ساتھیوں کے خلاف اِنہی ادوار میں درج نیب اور دوسری عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں لچک پیدا کر کے انہیں احتسابی عمل سے چھٹکارا مل گیا تھا اور وہ واپس وطن بھی آ گئے تھے۔ اصل میں سیاست دانوں کی کمٹمنٹ کی اپنی طاقت ہوتی ہے، یہ روایتی عملی سیاست جیسی لچک سے مکمل گریزاں ہو جائے تو سیاسی بحران جنم لیتے ہیں کیونکہ یہ ایسے ہی وعدوں سے سیاسی طاقت حاصل کرتے ہیں۔ احتسابی عمل، عمران خان کی بطور نووارد بڑے پارلیمانی لیڈر، کمٹمنٹ بھی ہے اور اس انتخابی مہم کا زور دار وعدہ بھی جس کی عوامی قبولیت نے انہیں، طاقت و اسٹیٹس کو سے ٹکرانے پر بھی وزیراعظم بنا دیا۔

عمران خان اور اب ’’حریت پسندی‘‘ کی ’’مہم جوئی‘‘ میں رنگے، سات سمندر پار ’’احتسابی عمل‘‘ سے بچ نکلنے میں کامیاب میاں نواز شریف کے پہلی مرتبہ وزیراعظم بننے کا فرق یہ ہے کہ، عمران خان، پی ڈی ایم کے الزام کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی سے ہی وزیراعظم بنے ہیں، تو بھی تب بنے ہیں جبکہ وہ ایک بڑے پاپولر لیڈر بن کر پی پی اور ن لیگ دونوں روایتی پارلیمانی طاقتوں کے لئے خطرہ بن چکے تھے، الیکشن سے 18روز قبل کے تمام غیر جانبدارانہ سرویز میں ان کے اقتدار میں آنے کے امکانات بہت واضح تھے حتیٰ کہ خود موجودہ اپوزیشن بھی اس کی توقع کر رہی تھی اور ملک بھر بشمول کراچی میں تو واضح اور بلوچستان میں بھی (کسی حد تک) عمران خان کی جیت واضح نظر آ رہی تھی۔ جبکہ اِس کے برعکس میاں نواز شریف کی پہلی وزارت عظمیٰ تو واضح طور پر بلکہ ثابت شدہ حد تک اسٹیبلشمنٹ کی مرہون منت تھی۔ کسی حد تک دوسری بھی، تاہم تیسری میں پیپلز پارٹی کی بدترین اور پنجاب میں ن لیگ کی بہترین گورننس نے میاں صاحب کے لئے تیسرے دور کی راہ صاف کر دی، اس انتخاب میں بھی عمران کا ایک بڑا پارلیمانی گروپ بننا بالکل واضح تھا جو بن گیا۔ پی ڈی ایم کی جلسہ سیریز کا یہ پہلو تو بالکل واضح ہے کہ عوام کے گھمبیر ہوتے مسائل کے باوجود، اس کی ’’حکومت اکھاڑ مہم‘‘ ہرگز کسی عوامی ضرورت یا جمہوری تقاضے کو منوانے کے لئے شروع نہیں کی گئی، بلکہ اس کا بنیادی مقصد اور وجہ ن لیگ اور پی پی کے سختی سے احتساب کی زد میں آ جانا اور حضرت مولانا کے پہلی مرتبہ پارلیمانی اسٹیٹس سے محروم ہونے والی فرسٹریشن اور ان کی مدرسہ طاقت ہی بنی ہے۔ پی ڈی ایم کا کیس یوں بھی کمزور ہے کہ جاری احتسابی عمل کوئی عمران حکومت نے شروع نہیں کیا، یوسف رضا گیلانی اور میاں صاحب دونوں اپنے اپنے دور اقتدار میں ہی عدالتی کارروائی سے محروم ہوئے۔ ان مقدمات کے نتیجے میں جو پی پی اور ن لیگ نے اپنے اپنے ادوار میں کرپشن کے الزامات عائد کر کے ایک دوسرے کے خلاف بنائے تھے، ان کے عدالتی فیصلوں کو دونوں جماعتوں اور قائدین نے ایک دوسرے کی وزارت عظمیٰ (یوسف رضا و نواز شریف) کو نا صرف قبول کیا بلکہ اسے آئین اور جمہوری عمل کی بالادستی قرار دیا۔ پھر میاں صاحب نے تو جس کیس میں تیسری وزارت عظمیٰ گنوائی، وہ خود انہوں نے بطور وزیراعظم پانامہ لیکس کے بعد پہلے پارلیمان میں زیر بحث لانے کی بجائے خود سپریم کورٹ کے سپرد کیا، جس کے پہلے فیصلے کو (ن) لیگ نے شروع ہوئے احتساب میں اپنی کامیابی قرار دیا تھا، شادیانے بھی بجائے لیکن فل بنچ کا فیصلہ آنے پر میاں صاحب نے احتجاجی سوال اٹھا دیا، مجھے کیوں نکالا؟

پی ڈی ایم کی ’’حکومت اکھاڑ مہم‘‘ کے اس پس منظر میں جاری جمہوری عمل اور آئینی حکومتوں کا برقرار رہنا، روایتی سیاسی جماعتوں کی اشک شوئی بھی تو تھی کہ ہماری اقتدار کی باریاں پوری نہیں ہونے دی جاتیں، دو وزارت ہائے عظمیٰ فراہمی عدالتی انصاف سے ختم ہونے کے باوجود باریاں پوری ہوئیں اور اس پر ملک بھر کے جمہوری علمی و صحافتی حلقوں میں بہت اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ بالآخر آئین کی بالادستی قائم ہونے کا عمل شروع ہو گیا۔ تیسری پارلیمانی قوت نے بھی اِسی جمہوری عمل میں جگہ بنائی اور اقتدار میں آئی۔ پی ڈی ایم نے موجود گھمبیر سیاسی و اقتصادی صورتحال اور ملکی دفاع و سلامتی و خارجہ امور کے بڑے پیدا ہوئے موجود چیلنجز کو یکسر نظر انداز کر کے انتہا کے غیر ذمے دارانہ سیاسی ابلاغ سے جو پیچیدہ صورتحال پیدا کر دی ہے، اس کا نتیجہ فقط حکومت اکھاڑنے تک ہے؟ کیا جاری جمہوری عمل بھی اس سے گہری تشویش ناک حد تک ڈسٹرب نہیں ہو گا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین