• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلح افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ’’سب کے احتساب کی ضرورت‘‘ کی جو بات کی ہے وہ نہ صرف ہر پاکستانی بلکہ دنیا کے ہر شہری کے دل کی آواز ہے۔دنیا بھر میں یہ مقبول ترین بات ہے کہ ہر وہ شخص یا ادارہ جس نے کرپشن کی ہے، اس کا احتساب ہونا چاہئے۔ جنرل راحیل شریف نے منگل کے روز کوہاٹ کے سگنل رجمنٹل سنٹر کے دورہ پر پاک فوج کے افسران، جوانوں اور شہداء کے خاندانوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پوری قوم کی جانب سے جو کامیاب جنگ لڑی جا رہی ہے وہ اس وقت تک پائیدار امن نہیں لا سکتی جب تک کرپشن کی لعنت کا خاتمہ نہ کیا جائے۔ اس لئے پاکستان کی یکجہتی، سا لمیت اور خوشحالی کے لئے سب کا احتساب ضروری ہے۔
جنرل راحیل شریف اور نواز شریف کی سربراہی میں موجودہ منتخب حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جس طرح ایک صفحہ پر ہو کر لڑی جا رہی ہے اس سے جہاں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے وہاں قوم کی نظروں میں جنرل راحیل شریف کا امیج بلند ہوا ہے۔بین الاقوامی طور پر بھی افواجِ پاکستان اور جنرل راحیل شریف کے اقدامات کو مقبولیت ملی ہے۔ جنرل راحیل شریف کی غیرجانبداری اور سیاست سے دوری بھی ان کا مثبت پوائنٹ رہی تاہم کئی تبصرہ نگاروں نے ’’سب کا احتساب ضروری ‘‘ والے بیان کے بارے میں یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ اس طرح کا بیان سیاست کے زمرے میں آتا ہے۔پاکستان میں ماضی کی سیاسی اور فوجی حکومتوں کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک طرف تو کرپشن اور احتساب کا نعرہ عوام کی دلوں کی آواز رہا ہے اسی لئے احتساب کے نام پر سیاست کا بستر گول ہوتا رہا ہے جبکہ دوسر ی طرف سیاسی حکومتیں غیرجانبدارانہ اور بے لاگ احتساب کا ایساادارہ بنانے میں آج تک کامیاب نہیں ہوئیںجس پر پوری قوم کا اتفاق ہو۔ ہم میں سے ہر ایک دوسرے کا احتساب چاہتا ہے مگر جب اپنے احتساب کی باری آتی ہے تو ہم اس پر شور مچا دیتے ہیں۔
50ء کی دہائی کا پروڈا ہو، ایوب خان دور کا ایبڈو ہو یا جنرل ضیاء الحق دور کی نااہلیاں، سب میں غیر جانبدارانہ احتساب کی بجائے سیاسی مقاصد نظر آئیں گے۔ کرپشن کے خلاف احتساب کا نعرہ لگا کر ہی جنرل پرویز مشرف بر سر اقتدار آئے تھے مگر پھر خود انہوں نے ہی این آر او کے ذریعے بد عنوانی کے تمام مقدمات کو سیاسی مفاد کے لئے پس پشت ڈال دیا۔ جن سیاستدانوں کے خلاف مقدمات تھے انہیں بیرون ملک جانے دیا گیا اور یوں احتساب پر سیاسی مفاد کو ترجیح دی گئی۔ ابھی حال ہی میں جنرل مشرف کے خلاف مقدمات زیرسماعت ہونے کے باوجود انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دیدی گئی۔لہٰذا یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ احتساب کے نام پر سیاست کی جاتی رہی ہے اور کئی بار اسی احتساب کے نام پر سیاسی نظام کو لپیٹا گیا ہے۔حالانکہ کرپشن کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں چاہے کوئی کتنا ہی بااختیار کیوں نہ ہو اس کے خلاف بلاامتیاز اور بلاخوف احتساب ہو۔ ہمارے ہاں حکمران ہوں یا بعض بڑے بڑے لوگ ، وہ ایسی مقدس گائے ہیں جن کا احتساب نہیں ہوتا۔ ’’سب کا احتساب ضروری‘‘ کا نعرہ عملی شکل اسی وقت اختیار کرے گا جب اس سے نظام کو خطرہ نہ ہو بلکہ نظام کے اندر احتساب کا ایسا خودکار میکنزم ہو جیسا امریکہ، بھارت یا برطانیہ میں ہے جہاں صدر امریکہ ہو یا بھارت کا وزیر، جو بھی کرپشن کرتاہے وہ احتساب کے شکنجے میں آ جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی احتساب وقت کی ضرورت ہے۔ جس سے نظام بھی قائم رہے اور احتساب کا مستقل سلسلہ بھی چلتا رہے۔
تازہ ترین